آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
صرف ضروری اور کام ہی کی باتیں پوچھئے فضولیات سے بچئے ایک عالم صاحب سے کسی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے والدین شریفین کے ایمان کی نسبت سوال کیا،انہوں نے فرمایا کہ نماز کے فرض تم کو یادہیں ؟ جواب دیا کہ نہیں ، فرمایا فرائضِ نماز یادکرو جن میں سے اگر کوئی متروک ہوجائے تو نماز ہی نہ ہو،اور نماز وہ چیز ہے کہ قیامت میں سب سے اول اسی کی باز پرس ہوگی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے متعلق (توتم سے ) سوال بھی نہ ہوگا ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ یعنی اسلام کی خوبی یہ ہے کہ آدمی فضول کو ترک کردے۔ اور کوئی وجہ تو ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ تقدیر میں گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی ،کیا حضرات صحابہ اس کو سمجھ نہ سکتے تھے؟ حالانکہ ہم جیسے بھی کچھ تفصیل سمجھ لیتے ہیں ، وجہ یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسئلہ تقدیر کی تحقیق پر کوئی کام اٹکا ہوا نہیں ،جو اعمال کرنے کے ہیں ان کی تحقیق چاہئے ،تقدیر پراجمالی ایمان بالکل کافی ہے۔ اور دیکھوقرآن شریف میں ہے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ یعنی صحابہ دریافت کرتے ہیں کہ چاند چھوٹا بڑا کیوں ہوتا ہے؟ جواب ملا قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ یعنی چاند کے یہ حالات مختلفہ حج وغیرہ کے اوقات معلوم کرنے کے واسطے ہیں ، توسوال تو علت سے تھا مگر جواب میں حکمت بیان کی، اس میں یہی اشارہ ہے کہ کام کی بات پوچھو اور غیر ضروری سے پرہیز کرو، یہ جواب علیٰ اسلوب الحکیم کہلاتا ہے اور دیکھئے نص میں تصریح ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(پ۱۸)لا یعنی کے معنی ہیں مالانفع فیہ (یعنی جس میں کوئی نفع نہ ہو)اور یہ عام ہے خواہ مضر ہو یا نہ ہو ،پس کتاب وسنت تو لایعنی کے ترک کرنے کا حکم دے رہی ہے مگر آج کل عموماً اسی میں ابتلاء ہورہا ہے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ شفاء العی ملحقہ تدبیر وتوکل ص۲۲۹