آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کہجہلاء کو اتنا تر نہ ہونا چاہئے کہ ڈوب ہی جائیں ۔۱؎ مولانا محمد نعیم صاحب فرنگی محلی سے ایک نیلگر (رنگریز) نے سوال کیا کہ فلاں حافظ جی نے پوچھا ہے کہ حضرت علی و معاویہ (رضی اللہ عنہما) میں کون حق پر ہیں ؟ مولانا نے فرمایا کہ بھائی تم کیا کام کرتے ہو؟ کہا: میں نیلگر (رنگریز) ہوں ، فرمایا: وہ حافظ جی کیا کرتے ہیں ؟ کہا جوتے بیچتے ہیں ، فرمایا :جاؤ تم اپنے نیل کے مٹکے کی خبر لو اورکپڑے رنگو، اور حافظ جی سے کہو کہ جوتے بیچیں ، قیامت کے دن حضرت علی جانیں اور حضرت معاویہ جانیں ، ان کا قضیہ فیصلہ کے لیے تمہارے پاس نہ آئے گا اور نہ تم سے یہ سوال ہوگا کہ بتلاؤ ان دونوں میں سے کون حق پر ہے۔۲؎ غرض کبھی اس قسم کے بھی جواب دینا چاہئے نرم جواب دے کر علماء نے عوام کا حوصلہ بڑھادیا ہے۔۳؎صریح جزئیہ کے بغیر محض کلیات سے جواب نہ دینا چاہئے جب تک کوئی جزئیہ نہ مل جائے محض کلیات سے استنباط اور تعلیل کرکے جواب دینے کی ہمت نہیں ہوتی، اس لیے کہ ہم جیسے لوگوں سے تعلیل کے اندر بھی غلطی ہوجاتی ہے۔۴؎ مسئلہ کا جواب محض کلیات سے مناسب نہیں احتیاط کے خلاف ہے، ایک بار حرم کے اندر درخت لگانے کے متعلق ایک سوال آیا تھا اس موقع پر فرمایا کہ اس کا جواب تو کسی کتاب میں کیا ملے گا مگر مصلحت اس میں ہے کہ جس مسئلہ کا بھی جواب دیا جائے کتاب میں جزئیہ دیکھ کر جواب دیا جائے، ورنہ اگر محض قیاس سے جواب دئیے جائیں گے تو نہ معلوم آج کل لوگ جوابات میں کیا کیا گڑبڑکریں گے کیونکہ علم وفہم میں کمی کی وجہ سے تحقیق کا درجہ تو ان کو حاصل نہیں اورکسی کی تقلید کرنے میں عار آئے گی توجو کچھ ------------------------------ ۱؎ ۱؎ آداب التبلیغ ص:۹۲ ۲؎ جمال الجمیل ص:۴۱۔۳؎ آداب التبلیغ ص:۹۳۔ ۴؎ الافاضات ۲؍۱۰۔