آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب نہ دے کر بھی سرزنش اور ملامت کرنا ایک شخص کا خط آیا ہے انہوں نے قنوت نازلہ کے بارہ میں دریافت کیا ہے کہ آج کل یہ نماز میں پڑھنی چاہئے یا نہیں ، اور اگر پڑھیں تو ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر اور آسمان کیطرف ہاتھ اٹھائیں یا نہیں ؟ میں نے ان کے جواب میں لکھا ہے بھلا ایسا جواب کیوں کسی کو پسند آئے گا مگر اس کی حقیقت تو میں جانتا ہوں یہ شخص ایک کم قوم کا ہے باہر جاکر اپنے کو سید ظاہر کیا نام بھی بدل دیا۔ میں نے جواب دیا ہے کہ آپ نے قنوت نازلہ میں تو استفتاء کیا جو چنداں ضروری نہیں اورر ذائل نفس کے متعلق کچھ نہ پوچھا جو نہایت ضروری ہے۔ اب یہ بات کہ جواب کو سوال سے کیا مناسبت ہے تو اس کا ثبوت کلام اللہ میں موجود ہے، وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الاَہِلَّۃِ ط قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ ط تو سوال تو کیا چاند کے گھٹنے بڑھنے کی علت سے اور جواب ملا ہے اس کی حکمت و فائدہ کا، مطلب یہ ہے کہ علت سے سوال مت کرو، فائدہ دیکھو جو جوڑ یہاں ہے وہی میرے جواب میں ، حاصل یہ کہ ضرورت سے سوال کرو۔۱؎ضرورت کے وقت مستفتی کو پریشان کرنا فرمایا کہ ایک شخص نے بذریعہ خط دریافت کیا کہ ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا ﷲ‘‘ کے وظیفہ کا کیا حکم ہے؟ آگے عبارت گستاخانہ تھی کہ اس کا حکم آپ کو کہاں تک معلوم ہے؟ جواب لکھا کہ حکم سے کیا مراد ہے، منصوص یا مستنبط وہ اس سوال کے چکر سے مدت تک بھی نہیں نکل سکتا یہ اس کی گستاخی کی سزا تھی۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ مزید المجید ص۱۱۱۔ ۲؎ کلمۃ الحق ص:۷۴۔