آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ضرورت کو عام رکھا ہے بلکہ اس میں صفحہ ۴۵ پر فہذہٖ کلہا قد تغیرت احکامہا لتغیرالزمان إما للضرورۃ وإما للعرف وإما لـقرائن الاحوال الخ ۔کے بعد جو تحریر فرمایا ہے فان قلت العرف یتغیر مرۃ بعد مرۃ فلوحدث عرف آخر لم یقع فی الزمان السابق فہل یسوغ للمفتی مخالفۃ المنصوص واتباع العرف الحادث ؟قلت : نعم فان المتأخرین الذین خالفوالمنصوص فی المسائل المارۃ، لم یخالفوہ إلا لحدوث عرف بعد زمن إلامام فللمفتی إتباع عرفہ الحادث فی الألفاظ العرفیۃ وکذا فی الأحکام التی بناہا المجتہد علیٰ ماکان فی عرف زمانہ وتغیر عرفہ الی عرف آخر اقتداء بہم الخ۔ اس میں تصریح ہے کہ اس زمانہ میں بھی تغیر زمان ضرورت جدیدہ کی وجہ سے ہوجائے تو اہل فتویٰ کامذہب غیر پر فتویٰ دینا جائز ہے۔۱؎دوسرے مذہب پر فتویٰ دینے کے بعض اہم شرائط (۱)شرط اولین تویہی ہے کہ مذہب غیر پر عمل کرنا ضرورت شدیدہ کی بناء پر ہو، اتباع ہواکے لئے نہ ہو اور اس شرط پر تمام امت کا اجماع اور اتفاق علامہ ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے ۔۲؎ (۲)افتاء بمذہب الغیر ہرزمانہ میں جائز ہے بشرطیکہ سخت ضرورت ہو کہ مذہب غیر کے لئے بدون، کوئی تکلیف ناقابل برداشت پیش آجائے(ضرورت کا معیار اوپر گذرچکا) (۳) کسی مسئلہ میں دوسرے امام کا مذہب لینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں اس امام کے نزدیک جو شرطیں ہوں ان سب کی رعایت کی جاوے۔ (درمختار، شامی۳؎ ) اگر کسی عمل میں بضرورت دوسرے مذہب پر عمل کیا جائے تو اس عمل کی تمام جزئیات پر عمل کرنا چاہئے ۔۴؎ (۴)اور ایک شرط مذہب غیرپر عمل کرنے کی جمہورعلماء کے نزدیک یہ بھی ہے ------------------------------ ۱؎الحیلۃ الناجزۃ:۴۷ ۲؎ فتاویٰ ابن تیمیہ ۲/۲۴۰ ۳؎ الحیلۃ الناجزۃ ص۷۰ ۴؎حسن العزیز ۴/۶۴