آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تقریر زید تصویر کشی کی فقہاء نے ہر طرح ممانعت کی ہے، خواہ چھوٹی تصویر ہو خواہ بڑی، مستبین الاعضاء ہو یا غیر مستبین الاعضاء ہو، فرق کراہت صلوۃ میں ہے، اور استعمال میں یا گھر کے رکھنے میں نہیں ، ’’اِن التصویر یحرم ولوکانت الصورۃ صغیرۃ کالتی علی الدراہم أوکانت فی الید او مستترۃ اومہانۃ مع ان الصـلـوۃ بذلک لاتحرم بل ولا تکرہ لان علۃ حرمۃ التصویر المـضاہـاۃ لخلق اﷲ وہی موجودۃ فی کل ما ذکر وعلۃ کراہۃ الصلوۃ بہا التشبہ وہی مفقودۃ فیما ذکر کما یأتی اھ شامی:۲، ہذا کلہ فی اقتناء الصورۃ واما فعل التصویر فہو غیر جائز مطلقا لانہ مضاہاۃ لخلق اﷲ تعالیٰ کما مراھ شامی۔ باقی یہ امر کہ پشت کی تصویر کو ممحوۃ الوجہ پر قیاس کرلیا جائے، اس کی نسبت احقر کو یہ وہم ہے کہ منھ مٹادینے سے ذی روح کی تصویر نہیں رہتی، اور اسی وجہ سے ایسے عضو کے کاٹ دینے سے جس سے زندگی باقی نہ رہے شامی میں اجازت دی ہے اور ممحوۃ عضو لا یعیش بدونہ اھ در مختار وقید بالرأس لانہ لا اعتبار بازالۃ الحاجبین والعینین لانہا تعبد بدونہ اھ شامی، اور اسی وجہ سے عالمگیری میں لکھا ہے کہ محو کے لیے شرط ہے کہ رأس کا نشان بھی نہ رہے، وقطع الرأس ان یمحی رأ سہا بخیط یخاط علیہا حتی لم یبق للرأس اثر اصلا اھ عالمگیری کی ان عبارتوں سے اور نیز علت مضاہات سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ پشت پر سے پوری تصویر لینا جائز ہے، اور ممحوۃ الرأس پر اس کا قیاس بعید ہے اس لیے اس تصویر کے کھینچنے میں گنجائش سمجھ میں نہیں آتی، غایت مافی الباب یہ کہ اگر کسی چھوٹے نقشہ میں مستبین الاعضاء نہ ہو تو اس کے اوپر، یا داہنے بائیں نماز میں کراہت نہ ہوگی۔