آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایسے مولویوں کا بھی فتویٰ معتبر نہیں جن کو فقہ میں عبور حاصل نہ ہو فتویٰ وہی شخص دے سکتا ہے جو فقہ پر پورا حاوی ہو ،علم کاکمال جب ہوتا ہے جب آدمی فن کا محیط ہو ،اور یہ بات بڑی مشق سے اور علماء کے پاس رہنے سے اور ملکہ تامہ اور ذوق صحیح پیداکرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ صاحبو! کوئی علم ایسا نہیں جو بدون احاطہ آجاوے ،کسی فن کی دوچار باتیں جاننے سے کوئی اس فن کا عالم نہیں کہا جاسکتا اور اس فن کے بارہ میں اس کی تحقیق مستند نہیں کہی جاسکتی اور ایسے آدمی کی تحقیق پر عمل کرنا اس فن پر عمل کرنا نہیں کہا جاسکتا، دیکھئے! اردو کی ایک کتاب طب کی دیکھ لینے سے آدمی طبیب نہیں کہلایاجاسکتا اور طب کے بارہ میں اس کی تحقیق مستند نہیں ہوسکتی اور اس کی تحقیق پر عمل کرنے سے علاج کرنے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ،جس شخص نے ایسے طبیب سے علاج کرایا ہو اور اس کو آرام نہ ہوا ہو اس کو کوئی یوں نہیں کہے گا کہ اس نے علاج تو بہت کرالیا اب اس کی تقدیر ہے ،اس کو ہرشخص یہی کہے گا کہ میاں باقاعدہ علاج کراؤ،کسی طبیب کے پاس جاؤ ،اپنی جان کے کیوں دشمن ہوئے ہو یہ بھی کوئی علاج ہے ؟اسی طرح فقہ بھی ایک علم ہے اس کی ایک آدھ کتا ب پڑھ لینے یادیکھ لینے سے کوئی فقیہ نہیں ہوسکتا اور نہ اس کا فتویٰ معتبر ہوسکتا ہے اور نہ اس سے فتویٰ پوچھ کر عمل کرنے سے کوئی مؤاخذہ سے بری ہوسکتا ہے ،ایسا نام کا فقیہ (زبردست)فاش غلطیا ں کرے گا ،مگر اب تو یہ حالت ہے کہ فتویٰ پوچھنے والے مفتی کا ماہر ہونا توکیا دیکھتے وہ تو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس سے فتویٰ پوچھ رہے ہیں اس نے فقہی کتابیں بھی پڑھی ہیں یا نہیں ، بس اتنا سن لیا کہ یہ بھی مدرسہ میں رہتے ہیں ، بس ان سے فتویٰ پوچھنا شروع کردیا، منشااس کا دین کے طرف سے لاپروائی ہے کہ جوالٹا سیدھا چاہا کرلیا ،اور ضابطے کی کارروائی کرنے کے لئے ایک پڑھے لکھے سے پوچھ بھی لیا۔(وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص۷۰)