آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کئے ،خود گمراہ ہوئے ،دوسروں کو گمراہ کیا۔ سب سے پہلے (فاسد قیاس، دلیل شرعی کے بغیر) ابلیس نے کیا یہ کہہ کرکہ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہ‘ مِنْ طِیْن کہ آپ نے آدم(علیہ السلام) کو مٹی سے پیداکیا اور مجھ کو آگ سے ، (آگ مٹی سے افضل ہے، میں کیوں آدم کے سامنے جھکوں ) آج شمس وقمر کی پرستش شیطان کے اس فاسد قیاس کے نتیجہ ہی میں ہورہی ہے۔ (ان سب حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مسائل میں اپنی رائے کو دخل دینا حرام اور ابلیس کا طریقہ ہے، اپنی اور دوسروں کی گمراہی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے(مرتب)عامی شخص اور غیر مجتہد کومجتہد کے قول اور فتویٰ کااتباع لازم ہے جس شخص میں اجتہاد کی اہلیت (وقابلیت) نہ ہو خواہ وہ عامی محض ہو یاکسی قدر ان علوم کو حاصل کرچکا ہو جو اجتہادکی شرائط میں سے ہیں ، ان دونوں کو مجتہدین کے قول اور فتویٰ کا اتباع لازم ہے ،محققین اہل اصول کا یہی مذہب ہے۔۱؎ یعنی جس کو اجتہاد کی قابلیت نہ ہو اسے خود قرآن وحدیث سے مسائل مستنبط کرنا اور اپنے استنباط پر عمل کرنا جائز نہیں جب تک اس کے قول کا مجتہدین کے قول سے موافق ہونا ظاہر نہ ہوجائے ۔ العامی ومن لیس لہ اہلیۃ الاجتہاد وان کان محصلا لبعض العلوم المعتبرۃ فی الاجتہاد یلزمہ اتباع قول المجتہدین والاخذبفتواہم عند المحققین من الاصولیین ۔۲؎ ای لایجوز الاجتہاد فی القرآن والحدیث والعمل باجتہاد ہ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ص۱۸۰ج۳ ۲؎ احکام الاحکام للآ مدی ص ۳۰۶ ج۴