آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
استفتاء اور افتاء یعنی سوال وجواب کے بھی قواعد ہیں ، ان قواعد کے اندر رہ کر جواب دینا چاہئے، عوام کا ایسا تابع نہ ہونا چاہئے کہ وہ جیسا بھی سوال کریں اس کا جواب ضرور دے دیا جائے، چاہے وہ جواب اس کے مناسب ہو یا نہ ہو، اور اگر کوئی اصرار کرے تو کہہ دے کہ مجھے تحقیق نہیں اور اگر یہ کہتے ہوئے عار آئے تو کہہ دے کہ یہ سوال تمہارے منصب سے بالاتر ہے مگر آج کل تو بس اس کی کوشش ہے کہ کوئی بداعتقاد نہ ہوجائے میں کہتا ہوں کہ اگر واقع میں بھی نہ آتا ہو تو اس میں عار کی کیا بات ہے۔۱؎علمی و تحقیقی جواب دینے کی دو شرطیں فرمایا کہ سائل کی نسبت جب تک دو امر کا اطمینان نہ ہوجائے سکوت کرتا ہوں ، وہ دو امر یہ ہیں ایک سائل کی استعداد علمی، تاکہ جواب رائیگاں جانے کا احتمال نہ رہے۔ دوسرا امر سائل کی نیت کہ بجز تحقیق کے اس کا کوئی مقصود نہیں ، چونکہ آپ کے متعلق دونوں امر کے معلوم ہونے کا میر ے پاس کوئی ذریعہ نہیں لہٰذا جواب سے معافی کا طالب ہوں ۔۲؎علمی و تحقیقی سوال اگر اچھی نیت سے اہل علم کی جانب سے ہو تو اس کا جواب دینا چاہئے حضرت تھانویؒ ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں :اس قسم کے سوالات چند بار پہلے بھی مجھ سے کئے گئے ہیں لیکن چونکہ اب تک اکثر سائلین غیر اہل علم تھے جن کی غرض سوال بھی قابل اطمینان نہ تھی اورجوابات بھی واضح تھے اس لیے سوالات کی اہمیت نہیں سمجھی گئی (اور جوابات نہیں دئیے گئے) مگر اب اہل علم کی طرف سے سوال کیا گیا ہے جن کی غرض بھی متہم نہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ جواب دیا جائے۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱۰؍۶۱-۶۲۔ ۲؎ الافاضات ۹؍۲۷۵۔ ۳؎ بوادر النوادر ۲؍۸۱۵۔