آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
سوال کی مختلف جہتوں اور شقوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے فرمایا: بعض سوالات کا جواب دینے میں بہت تنگی ہوتی ہے، ایک صاحب نے دریافت کیا کہ میں حج کو جانا چاہتا ہوں ، مجھ سے اجازت مانگتے ہیں اور وہ پہلے سے حاجی بھی ہیں ان کو منع کروں تو دل نہیں چاہتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگ اس کو ممانعت پر محمول کرلیتے ہیں کہ دیکھو طاعت سے روکتے ہیں اول تو طاعت سے کوئی روکتا نہیں ، اور چھوٹی طاعت سے روک کر کسی بڑی طاعت کا حکم کردیں تو اس کو کوئی دیکھتا نہیں ،اس لیے میں نے یہ لکھ دیا ہے کہ آپ کی اس سفر سے غرض کیا ہے؟ اب وہ خود سمجھ کر لکھیں گے۔ فرمایا: ایک رئیس کے ملازم کا خط آیا ہے اور سوال کیا ہے کہ آقا کو جھک کر سلام کرنا درست ہے ؟ اب اگر لکھتا ہوں کہ درست ہے تو جواب غلط ہے، اور اگر لکھتا ہوں کہ نہیں ، تو آقا کو خیال ہوگا کہ ہمارے نوکر کو بے ادب بنایا، میں نے لکھ دیا ہے کہ کیا وہ بے جھکے سلام کرنے سے ناراض ہوتے ہیں ؟ اب اگر وہ سوال کرے گا اور لکھے گا کہ ناراض ہوتے ہیں تب میں لکھوں گا کہ درست نہیں اس صورت میں آقا کو معلوم ہونے پر یہی خیال ہوگا کہ اس نے سوال ہی ایسا کیا ہے جس کا جواب یہ ہے، میں اس قدر ان معاملات میں رعایتیں کرتا ہوں ۔۱؎ فرمایا کہ مسائل ذو جہتین میں اہل اغراض بزرگوں (مفتیوں ) کو ایک رخ دکھلاکر اپنے ساتھ کر لیتے ہیں جس کا منشا حسن ظن ہوتا ہے دوسرے رخ کی طرف اس وقت التفات نہیں ہوتا لیکن اگر خصوصیت کے ساتھ کوئی شخص ان حضرات کو دوسرا رخ دکھلاکر استفتاء کرے تو وہ ضرور نکیر فرمائیں گے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ ؎ الافاضات ۸؍۲۷۳۔ ۲؎ ملفوظات کمالات اشرفیہ ص:۹۲۔