آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مگر میں اس محاکمہ کا محاکمہ کرتاہوں کہ قرآن میں کفار کوکافر کہہ کربلاضرورت خطاب نہیں کیاگیا اور جہاں اس لفظ سے خطاب کیاگیا ہے وہاں ضرورت تھی ،وہ یہ کہ ان ظالموں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بے ڈھنگی درخواست کی تھی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں ایک سال ہم آپ کے خداکی عبادت کرلیاکریں گے اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی کہ ان سے فرمادیجئے کہ اے کافرو! میں تمہارے معبودوں کی پرستش نہ کروں گا، نہ تم میرے معبودکی عبادت کروگے نہ اب نہ آئندہ تو یہاں ان لوگوں کی امیدیں قطع کرنے کیلئے سختی کے ساتھ کافرکہہ کر انکو خطاب کیاگیا ہے ، باقی آیات میں اس لفظ سے خطاب نہیں کیاگیا ،کیونکہ ضرورت نہ تھی پس فیصلہ یہ ہوا کہ خشن(سخت) خطاب بلاضرورت نہ کرناچاہئے ہاں ضرورت سے ہوتو جائز ہے ۔۱؎مسلمان کوکافر کہنے والا کافر ہوگا یانہیں ؟ میں تو کبھی ایسے شخص کو کافرنہیں کہتاجو مجھے کافر کہے کیونکہ کہ کسی مسلمان شخص کوکافر کہنا عقیدہ کی تومعصیت اور فسق ہے مگر کفر نہیں ۔۲؎اگرکوئی ہم کوکافر کہے فرمایا: ہمارے یہاں یہ سکھایاگیاہے کہ جب تم کو کوئی کافر کہے تو لاالٰہ الااللہ پڑھ دو، ہمارے حضرت حاجی صاحب فرمایاکرتے تھے کہ اگر میں عنداللہ مومن ہوں توکوئی میرا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔۳؎ علماء اہل فتویٰ کو مجبورہونا پڑتاہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون مسلم ہے کون کافر ، کون صالح ،کون فاسق، کسی معین شخص کیلئے ایسا حکم کرنا بڑاکٹھن کام ہے ۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ حقیقت تصوف وتقویٰ ،وعظ المرابطۃ ص:۶۷ ۲؎ الافاضات الیومیہ ص:۲۰ج۸ ۳؎ مزید المجید ص۲۵ ۴؎مجالس حکیم الامت ص:۱۰۸