آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہر سوال واضح اور علیحدہ ہونا چاہئے ایک صاحب نے مسئلہ دریافت کیا اور دو صورتوں کو ایک ہی مسئلہ میں جمع کردیا کہ ’’اگر یہ کیا یا یہ کیا‘‘ تو کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ اس طرح دو سوالوں کو ایک ساتھ جمع کرکے نہ پوچھئے یعنی ’’یا‘‘ کرکے نہ پوچھئے! بہت سے سوال میرے پاس لفظ ’’یا‘‘ کے ساتھ آتے ہیں جہاں ’’یا‘‘ ہوا واپس کردیتا ہوں اور لکھ دیتاہوں کہ علیحدہ علیحدہ سوال قائم کرکے بھیجئے۔۱؎ایک ہی مسئلہ کو بار بار نہ پوچھنا چاہئے ایک صاحب نے ایک مسئلہ مولانا صاحب سے دریافت کیا اور اس کے ذیل میں یہ بھی کہنے لگے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس مسئلہ کو اس طرح بیان کیا تھا، مولانا نے فرمایا کہ جب تم نے ایک جگہ اس مسئلہ کو دریافت کرلیاتھا پھر دوبارہ کیوں دریافت کرتے ہو؟اور اگر تم کو ان مولوی صاحب پر اعتقاد نہیں تو پھر میرے سامنے ان کا نام لینے سے کیا فائدہ یہ حرکت سخت بے ہودگی کی ہے۔۲؎ایک ہی مسئلہ کو کئی جگہ نہ دریافت کرنا چاہئے فرمایا کہ دو جگہ مسئلہ نہ دریافت کیا کرو، اس طرح تسلی و تشفی نہیں ہوتی بلکہ تشویش بڑھ جاتی ہے جس سے عقیدت ہو اس سے دریافت کرو، اور اگر(کبھی کسی ضرورت سے) چند جگہ دریافت کرو توفیصلہ خود کیا کرو، ایک کا جواب دوسری جگہ دوسرے کے سامنے نقل کرنا بالکل نامناسب ہے اور کوئی عالم کسی کا مقلد نہیں ہوسکتا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۱؍۱۹۵۔۲؎ دعوات عبدیت ۱۴؍۱۰۔۴؎ملفوظات ۳؍۳۲۔ ۳؎ ملفوظات ۳؍۳۲۔