آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اور ہم کو معاملہ میں سیدھی راہ بتلادیجئے ۔ ایسے بڑے جلیل القدر سلطان کے خلوت خانۂ خاص میں کسی کا بے اجازت پھراس بے ڈھنگے پن سے آگھسنا ،پھر بات چیت اس طرز سے کرنا کہ اول تویہ کہنا کہ ڈرومت جس سے متکلم کا بڑا اور مخاطب کا چھوٹا ہونا مترشح ہوتا ہے ، پھر یہ کہنا کہ انصاف سے فیصلہ کرنا اور بے انصافی مت کرنا جس سے ایہام ہوتا ہے کہ نعوذباللہ آپ سے بے انصافی کا بھی احتمال ہے ،غرض ان کا مجموعۂ اقوال وافعال نہایت درجہ گستاخی ہے ، پس اس میں داؤد علیہ السلام کے تحمل وصبر کا امتحان ہوگیا کہ آیا زورِ سلطنت میں ان متواتر گستاخیوں پر داروگیرکرتے ہیں او اس مقدمہ کو ملتوی کرکے ان پردوسرا مقدمہ قائم کرتے ہیں ، یا غلبۂ نورنبوت سے عفو فرماتے ہیں اور اس مقدمہ کو کمال عدل سے بلاشائبہ غیظ وغضب فیصل کرتے ہیں ،چنانچہ (داؤدعلیہ السلام) امتحان میں صابر ثابت ہوئے اور مقدمہ کو نہایت ٹھنڈے دل سے سماعت اور فیصل فرمایا۔۱؎ (فائدہ)اہل معاملہ کے اس خلافِ تہذیب کلمہ کو داؤدعلیہ السلام کو برداشت فرمانا دلیل ہے اس پر کہ حاکم اور اسی طرح مفتی اور شیخ کو ایسے امور کا تحمل کرنا چاہئے۔ نیزاس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جس کو اپنے تقدس پرناز ہو جب کہ معصوم سے یہ کہا جاتا ہے کہ حدسے تجاوز نہ کیجئے توغیر معصوم کو اپنے نفس پروثوق کرنا کہ مجھ میں یہ احتمال نہیں کب زیبا ہے ؟ ۲؎مفتی اور قاضی کا ایک فرق مفتی اور قاضی میں فرق یہ ہے کہ مفتی کا جواب تو جملہ شرطیہ ہوتا ہے کہ اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو اس کا حکم یہ ہے، اور قاضی کا فیصلہ جملہ انشائیہ ہوتا ہے کہ اس معاملہ کی صورت ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن ص۵پ۲۳ سورہ ص ٓ ۲؎ بیان القرآن ،مسائل السلوک ص۴۵۹