آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہے یا نہیں ، جواب سے اس کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں نے لکھا ہے کہ خلوت صحیحہ تم کس کو سمجھتے ہو تمہارے ذہن میں خلوت صحیحہ کا مفہوم کیا ہے؟ ممکن ہے کہ خلوت صحیحہ کو سمجھتے ہی نہ ہوں تو جواب کو غلط سمجھتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تصور شیخ کے متعلق کیا حکم ہے؟ میں نے کہا کہ آپ تصور شیخ کا کیا مطلب سمجھتے ہیں ، کہنے لگے کہ خدا کو پیر کی شکل میں دیکھنا، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خیر کی، ورنہ یہ شخص ہمیشہ کے لیے گمراہی میں مبتلا ہوجاتا تب میں نے اس کا نفی میں جواب دیا، یہ سب تجربہ کی باتیں ہیں ۔۱؎جواب ہمیشہ ظاہری عبارت کے موافق ہونا چاہئے ایک شخص ایک تحریری استفتاء لایا، حضرت نے فرمایا کہ اس میں یہ بات درج نہیں ہے کہ جو شخص طلاق دینا چاہتا ہے اس نے بعد نکاح صحبت کی یا نہیں ؟ کیونکہ اس سے حکم بدل جائے گا، اس نے کہا کہ کئی سال نکاح کو ہوگئے صحبت ضرور کی ہے حضرت نے فرمایا کہ اس میں تو یہ نہیں لکھا اگر تم یہ بات صرف زبانی کہتے ہو زبانی مسئلہ کا جواب بھی سن لو یا اس میں لکھانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں تو اس میں لکھا نا چاہتا ہوں حضرت نے فرمایا کہ پھر جب اس میں لکھالاؤ گے تب اس میں جواب لکھا جائے گا۔۲؎جواب ہمیشہ واضح اور آسان زبان میں ہونا چاہئے فرمایا کہ جو سوال کیا جائے اس کا بلا تکلف صاف صاف جواب دینا چاہئے گول پیچ دار الفاظ ہرگز نہ ہو نے چاہئیں ، تکلف اور تصنع جو آج کل بطور عادت ثانیہ کے ہوگئے ہیں بالکل خلوص کے خلاف اور نہایت تکلیف دہ چیزیں ہیں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ ؎ الافاضات الیومیہ ۷؍۳۴۲س:۲۔ ۲؎ حسن العزیز ۱؍۱۳۶۔ ۳؎ملفوظات اشرفیہ ص:۳۳۹۔