آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب سے قبل سوال کی توضیح بھی ضروری ہے فرمایا: ایک مدرسہ سے خط آیا ہے کہ وہاں کے ایک مدرس صاحب نے تحریکات میں حصہ لیا تھا اور ڈیڑھ برس تک جیل میں رہے تو زمانۂ قید کی تنخواہ ان کو دینا چاہئے یا نہیں ؟میں نے جواب میں لکھا ہے کہ دو باتیں دریافت طلب ہیں (۱) نوکر رکھتے وقت ان سے معاہدہ کیا تھا (۲) وہ تنخواہ لینے والے کیا توجیہ کرتے ہیں صاف صاف لکھو تو جواب دوں ۔۱؎صورت مسئلہ کی تعیین بھی ضروری ہے جواب تو جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ سوال کی صورت متعین ہو، واقعات کی تنقیح جب تک نہ کی جائے گی جواب کس بات کا ہوگا، فرمایا :اس کے متعلق یہاں پر بہت سوال آتے ہیں جواب میں لکھ دیتا ہوں کہ زبانی سمجھنے کی بات ہے زبانی سمجھ لو۔ یہ اسی واسطے کہ سائل سے سوال کی تنقیح تو کرلی جائے۔۲؎مجمل و مبہم غیر منقح سوالات ہوں تو کیا کرنا چاہئے لوگ خطوط میں ایسے گنجلک سوالات بھیجتے ہیں ، مجھے بڑا خلجان ہوتا ہے، سب امور کی تنقیح خط لکھنے والے سے کس طرح ممکن ہے ایسی صورت میں تو یہ لکھ دیتا ہوں کہ کسی عالم سے زبانی پوچھ لو، اور بعض اوقات تنقیحات بھی قائم کرکے لکھ کے بھیجتا ہوں لیکن اس صورت میں لکھتے وقت ممکن ہے کہ کوئی تنقیح ذہن میں نہ آئے اور پوچھنے سے رہ جائے۔ ۳؎ بہت سے سوالات میرے پاس لفظ یا کے ساتھ آتے ہیں جہاں یا ہو واپس کرکے لکھ دیتا ہوں کہ علیحدہ علیحدہ سوال قائم کرکے بھیجئے لوگوں کو طریقہ بتلانا چاہئے اگر دو باتیں پوچھنی ہوں الگ الگ کرکے پوچھئے مجھے تو دونوں باتوں کا ذہن میں رکھنا بڑا ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص:۱۳۱۔ ۲؎ الافاضات الیومیہ ۲؍۱۸۔ ۳؎ حسن العزیز ۱؍۱۲۹