آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب میں تلبیس و ایہام سے بچنا چاہئے فرمایا کہ ایک بڑے علامہ نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک فتویٰ آیا ہے کہ ولایتی کپڑا پہننا جائز ہے یا نہیں ؟ اب اگر یہ لکھا جاتا ہے کہ جائز ہے تب تو اپنے مقاصد میں خلل آتا ہے اور ناجائز کیسے کہیں کیونکہ جائز تو واقع میں ہے ہی، اس لیے اس کے خلاف بھی نہیں کرسکتا تو اب کیا کریں ؟ فرماتے تھے کہ یہ جواب دیا کہ ولایتی کپڑا پہننا قابل مؤاخذہ ہے اور کہنے لگے کہ اس لکھنے میں حکمت یہ تھی کہ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ خدا کے یہاں مؤاخدہ ہوگا اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اپنے دوستوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ میں نے کہا کہ مولانا توبہ کیجئے یہ تو شریعت مقدسہ میں تحریف ہے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے، فرمایا کہ ایسی ایسی باتیں سن کر دل کانپ جاتا ہے کہ اے اللہ! دین کا ان لوگوں کے دلوں سے احترام جاتا رہا۔۱؎جس مسئلہ کا جواب جاچکا ہو دوبارہ اس کا جواب نہیں دینا چاہئے فرمایا کہ یہاں یہ بھی قاعدہ ہے کہ جس مسئلہ کا ایک مرتبہ یہا ں سے جواب جاچکا ہو اور وہ دوبارہ پوچھا جائے اور یہ بات یاد آجائے تو دوبارہ اس کا جواب نہیں لکھتے، لکھ دیتے ہیں کہ اس استفتاء کا جواب یہاں سے ایک مرتبہ جاچکا ہے اگر دوبارہ لکھوانا ہے تواس کو واپس بھیج دیا جائے ہم اس کو اپنے ہاتھ سے پہلے پھاڑ کر پھر دوبارہ جواب بھیجیں گے ورنہ کسی اور سے منگوالیا جائے پھر فرمایا کہ صاحب! مولویوں کو گالی پڑتی ہے کہ ایک کو کچھ لکھ دیا ایک کو کچھ، اس لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ۲؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱؍۴۷۔ ۲؎ حسن العزیز ۱؍۵۴۔