آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
باب۵ مسئلۂ تکفیر سے متعلق چند ضروری اہم ہدایات علمائِ اہل فتویٰ کو مجبور ہونا پڑتا ہے کہ یہ فیصلہ کریں کہ کون مسلم ہے کون کافر، کون صالح، کون فاسق، مگر کسی معین شخص کے لیے ایسا حکم کرنا بڑا کٹھن کام ہے بڑی احتیاط لازم ہے۔ ۱؎ میں اہل علم کو تنبیہ کرتا ہوں کہ فتویٰ میں یہ طریق اختیار کریں کہ کسی کے کہنے سے دوسرے پر فتویٰ نہ لگائیں اسی طرح کسی پر کفر کا فتویٰ نہ دیں ۔۲؎کفر کی دوقسمیں ، کفر اعتقادی ،کفرعملی قال اللہ تعالیٰ :یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تُطِیْعُوْافَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْکِتَابَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَاِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْن۔(اٰل عمران آیت نمبر۱۰۰) اے ایمان والو! اگر تم کہنا مانو گے کسی فرقہ کا ان لوگوں میں سے جن کوکتاب دی گئی یعنی اہل کتاب میں سے تو وہ لوگ تم کو تمہارے ایمان لائے پیچھے اعتقاداً یاعملاً کافربنادیں گے۔ فائدہ: اثناء ترجمہ میں تعمیم کفرکیلئے جو اعتقاداً وعملاً کہا گیا اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک معنی کفر کے تو متعارف ہیں اور وہ کفر اعتقادی ہے ،اور ایک معنی یہ ہیں کہ اعتقاداً تو مومن ہو مگر کام کافروں کے سے کرے اس کو بھی مجازاً کفر کہہ دیتے ہیں ،کفر عملی سے یہی مراد ہے ،قرآن وحدیث میں اس کا بھی استعمال بہت آیا ہے ،پس مطلب آیت کا یہ ہے کہ اہل کتاب کی اطاعت سے کفر کا ڈر ہے، اگر اطاعت عقائد میں کی جائے توکفر اعتقادی ہوگا ، اور اگر اطاعت اعمال ومعاصی میں کی جائے جیسے ان کے اشتعال سے لڑنے کو تیارہوگئے تویہ عمل کافروں کا ساہوگیا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص:۱۰۸ ۲؎ کلمۃ الحق ص۳۳ ۳؎ بیان القرآن ،آل عمران پ۴