آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فرضی مسائل مت پوچھو اور اسی طرح مرض کے ساتھ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جو مرض واقع ہو اس کے متعلق سوال کرتے ہیں ، یہ نہیں کرتے کہ مرض فرض کرکے اور گھڑگھڑ کے حکیم جی سے بیان کریں ،ایسے ہی علماء سے وہ مسائل دریافت کرنے چاہئیں کہ جن کاوقوع ہو، احتمالات کا اختراع مت کرو، جیسا ایک شخص نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ ایک عورت اور اس کا بھائی اور خاوند چلے جارہے تھے بھائی اور خاوند کو دشمنوں نے آکرمارڈالا اور سرکاٹ ڈالا، اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ آیا اس نے خاوند کے دھڑ میں بھائی کا سراور بھائی کے دھڑ میں خاوند کا سر جوڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعاکی وہ زندہ ہوگئے تو اب اس عورت کا خاوندکونسا ہے اور بھائی کونسا؟بالکل مہمل بات ہے، بھلاکہیں ایسا واقع ہوا ہے؟فتویٰ ایسے مفتی سے لو اورمسئلہ ایسے شخص سے پوچھو جس پر پورااطمینان ہو ایک اور ادب معلوم ہوا ،وہ یہ ہے کہ دوا(اور علاج)ایسے شخص سے پوچھا کرتے ہیں جس پر اطمینان ہو، ہر کسی سے علاج نہیں کرایا کرتے اور جس پر اطمینان ہو وہ خواہ تلخ(کڑوی) دوابتادے یامیٹھی ،بدل وجان قبول کرلیتے ہیں اسی طرح دینی مسائل بھی اس شخص سے پوچھو جس پر کامل اطمینان ہو اور پھر وہ خواہ نفس کے موافق حکم بتاوے یا خلاف ،خوشی سے قبول کرلو۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ السوال ملحقہ اصلاح اعمال ص۳۳۶