آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بتلادیا جائے۔۱؎ غالباً علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ عوام کو تشقیق کے ساتھ جواب نہ دیا جائے واقعی کام کی بات فرمائی ہے اس میں اندیشہ ہے کہ وہ مفید شق کا دعویٰ کربیٹھے گا جیسے طبیب سے کوئی پوچھے کہ اگر دموی مرض ہے تو کیا نسخہ ہے اور صفراوی مرض ہے تو کیا نسخہ ہے؟ یہ واہیات سلسلہ ہے، جو صورت حال ہو اسی کا سوال اور اسی کا جواب ہونا چاہئے۔۲؎ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ مفتی کو مسئلہ میں تشقیق نہ کرنا چاہئے ،بلکہ سائل سے ایک شق کی تعیین کراکر صرف اس کا جواب دینا چاہئے ،تجربہ سے معلوم ہوا ،بڑے کام کی وصیت ہے ،مفتیوں کے کام کی بات ہے ،کیونکہ تشقیق میں بعض اوقات(سائل)اپنے مفید شق کادعویٰ کرنے لگتا ہے ۔۳؎تشقیق کے ساتھ جواب دینے کی خرابی فرمایا کہ شقوق فرض کرکے جواب دینا عامی کے لیے سخت مضر ہے کیونکہ اس کو اتنی تمیز نہیں ہوتی کہ وہ ہر شق کے جواب کو علیحدہ علیحدہ کرکے منطبق کرلے گا، اس لیے پیشتر اس سے واقعہ کی صورت کو متعین کرالینا چاہئے پھر اس کا جواب بتلادے۔۴؎ اس کی خرابی کا ایک قصہ سناتا ہوں کہ ہمارے قریب ایک قصبہ میں غلطی سے رضاعی بہن بھائی کا نکاح ہوگیا اور یہ بے خبر ی میں ہوا کسی کو پتہ نہیں تھا اسی لیے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دودھ پلانے والی مشہور کردے کہ میں نے فلاں فلاں جگہ دودھ پلایا ہے … غرض کہ بعد نکاح کے پتہ چلا، علماء سے استفتاء کیا سب نے حرام بتلایا مجھ سے کہا گیا کہ اجی اس میں تو بدنامی ہوگی، میں نے کہا اور اس میں بدنامی نہ ہوگی کہ بہن بھائی ایک جگہ جمع ہیں ، اس نے کہا وہ دودھ تو رہا بھی نہ تھا ویسے ہی نکل گیا میں نے کہ کہا دودھ ہی نکل گیا تھا حرمت نہیں نکلی وہ تو اس کے پیٹ میں بیٹھ گئی۔ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۶؍۳۷۰، قسط:۳۔ ۲؎ ایضاً ۸؍۱۹۴، قسط:۱۔ ۳؎ ملفوظات ص۴۲۱ج۲قسط ۴۴؎ کمالات اشرفیہ ص۳۲۱