آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
سہولت رفع کئے جاسکتے ہیں ۔ اب مجھ میں قوت کہاں ہے، کام کے لوگ موجود ہیں مگر کام نہ کریں تو اس کا کیا علاج ہے، آرام طلبی سے تو کام ہوتا نہیں کام تو کرنے سے ہوتا ہے جیسا مجھ سے بھلا برا ہوسکا دین کی ضروری خدمت کرچکا، اب جو اور کام باقی ہے اس کو اور لوگ کریں کیا وہ نہیں کرسکتے؟ مجھ سے اچھا کر سکتے ہیں لیکن اگر خواہ مخواہ ’’واجد علی شاہ‘‘ بن جائیں تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں ۔۱؎حضرت تھانوی کے یومیہ فتاوی لکھنے کی مقدار فرمایا: ڈاک کے خطوط مختلف تعداد میں آتے ہیں ہفتہ یا مہینہ کے کبھی جوڑے نہیں گئے، مگر میرا اندازہ پچیس تیس کا اوسط ہے کبھی کبھی پیتالیس(۴۵) پچاس(۵۰) تک گئے ہیں الحمدللہ روز جواب لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ بہت بار اور انبار ہوجائے۔۴؎ فرمایاآج جمع ہوئے استفتوں کا جواب پوراہوگیا، مگر سرمیں بھی درد ہوگیا،اکثر دیکھا ہے کہ جس روزکوئی بڑا کام ختم ہوتا ہے ، ختم کے بعد (جسمانی)تکلیف محسوس ہوتی ہے ،جیسے منزل پر پہنچ کر تکان ہوتا ہے اور درمیان میں مشغولی کی وجہ سے پتہ بھی نہیں چلتا۔۲؎ فرمایا: آج بحمداﷲ میں فتاوی کا جواب لکھ کر فارغ ہوگیا، چھبیس خط تھے اور ہر خط میں قریب قریب چار پانچ سوال اوسط رکھ لیجئے گا قریب پچھتر(۷۵) اسی(۸۰) کے سوالات ہوئے، خدا کے فضل سے ڈیڑھ گھنٹے میں جوابات ہوگئے۔ میرا جی یہ چاہتا ہے کہ عید سے پہلے فارغ ہوجانا چاہئے عید کے روز کوئی بار نہ ہو، ایک آدھ میں بوجہ زیادہ پیچیدہ ہونے کے یہ بھی لکھنا پڑا کہ اس میں ضرورت ہے روایتوں کے دیکھنے کی اور مجھ کو اس کی فرصت نہیں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۹؍۴۰۴ تا۴۰۷۔کلمۃ الحق ۱۷۱ ۲؎ ملفوظات حکیم الامت ص۳۹۴ج۲قسط ۴ ۳؎ الافاضات ۲؍۴۱