آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مقتدا اور مفتی کوتہمت اور بدنامی کے موقع سے بھی بچنا چاہئے خواص کے جس فعل سے عوام پر اثر پڑتا ہو خواہ وہ ان کے لیے جائز ہی کیوں نہ ہو تب بھی اس کو نہ کرنا چاہئے۔ ایک بزرگ تھے ان کو ایک ظالم بادشاہ کے دربار میں بلا کر سور کا گوشت کھلانے پر مجبور کیا گیا ، انہوں نے کہا میں ہرگز نہ کھاؤں گا پھر بکری کا گوشت کھلانا چاہا اور یقین دلایا کہ یہ بکری کا گوشت ہے مگر انہوں نے اس کو بھی نہ کھایا اور کہا کہ شہر میں شہرت ہوچکی ہے سور کے گوشت کھانے پر مجبور ہونے کی، لہٰذا میں جو کچھ بھی کھاؤں گا تو یہی مشہور ہوگا کہ سور کا گوشت کھایا ہے اس کا اثر عوام پر ہوگا اور برا ہوگا، دین میں فہم بڑی چیز ہے۔۱؎مقتداء دین کے لیے تعویذ وغیرہ کی اجرت لینا قبل شفا کے لینے میں تو بدنامی ہے جو مضر دین عوام ہے اور شفا کے بعد لینے میں یہ مخدور تو نہیں لیکن مقتداؤں کے لیے کچھ نامناسب معلوم ہوتا ہے پس جب تک حاجت شدید نہ ہو تحرز اولیٰ ہے۔۲؎مفتی کو محقق اور جامع ہونا چاہئے میں کہا کرتا ہوں کہ مصلح اور مفتی میں سب چیزیں ہونا چاہئے قرآن بھی حدیث بھی، فقہ بھی، تصوف بھی، پھر انشاء اللہ تعالیٰ ایسا شخص حدود پررہ سکتا ہے جامع نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ی ہوہی جاتی ہے، محقق اور جامع موقع اورمحل کو دیکھتا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ وہ فقیہ بھی ہو مفسر بھی ہو۔ ۳؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۳؍۲۰۴ ۲؎ امداد الفتاویٰ ۳؍۴۰۴۔ ۳؎ الافاضات الیومیہ : ۳۰۷