آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تو صاحبو! حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تو سوالات کے جوابات میں نص کا انتظار فرمائیں اور ہم لوگ اٹکل پچو جو جی میں آئے ہانک دیں ، اب تک تو ہر شخص اپنے حق میں یہ گمان کرتا ہے کہ میں قانون ساز ہوں ، سوالات کا جواب دینا کیا مشکل ہے۔ حالانکہ یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع تو ہر چیز میں ضروری ہے پس جیسے تحقیقات میں اتباع ہے اس میں بھی اتباع ہے کہ جو تحقیق نہ ہو کہہ دے کہ مجھے تحقیق نہیں ،یہ بھی تو اتباع ہی میں داخل ہے، تو امت کو اس کی اجازت نہیں کہ چاہے تحقیق ہو یا نہ ہو ہر سوال کا کچھ نہ کچھ جواب دیدے۔۱؎ آج کل ادنیٰ طالب علم سے پوچھ کر دیکھئے جو کبھی بھی کہہ دے کہ میں نہیں جانتا مجھ کو باوجود اس کے کہ کام کرتے ہوئے اتنے دن ہوگئے مگر اب تک ایسی ضرورت پڑتی ہے کہ یہ لکھتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مجھ کوشرح صدر نہیں ہوا۔۲؎سب سے آسان جواب اگر تم سے کوئی فضول بات پوچھے جس کا جواب تم کو معلوم نہیں ، تو صاف کہہ دو، ہم نہیں جانتے ، میں سچ کہتا ہوں کہ اس جواب میں ایسی راحت ہے جو کسی جواب میں نہیں ، مگر اس کو اتنا سستا اور عام نہ کردینا کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تم مسلمان ہو یا کافر تو وہاں بھی یہ کہو کہ ہم نہیں جانتے۔ لااعلم کہنا (یعنی یہ کہنا کہ ہم کو اس کا جواب معلوم نہیں ) یہ معمولی جواب نہیں بلکہ ایسا قیمتی جواب ہے کہ واللہ اسی کی بدولت مجھے ایک بڑے ورطۂ ہلاکت سے نجات ہوئی مجھ پر بھی ایک حالت گذری ہے جس سے کئی مہینہ تک ایک ورطۂ ظلماء (تاریکی کے گڑھے) میں مبتلا رہا، ایک جگہ مسئلہ قدر کے متعلق کچھ مضمون نظر پڑگیا بس قیامت آگئی اورایمان پر خطرہ ہوگیا، پھر جب تک میں شبہات کے جوابوں میں غورکرتا رہا پریشانی ------------------------------ ۱؎ الافاضات ۱۰؍۵۹-۶۰۔ ۲؎ جمال الجلیل ملحقہ جزاء و سزاء ص:۴۸ و ۵۰۔