آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نہیں ،حضرت مولانا گنگوہیؒ کی فراست دیکھئے کہ کتنے بڑے خلجان کو ذراسی دیر میں رفع فرمایا ، واقعی یہ حضرت مولانا ہی کاکام تھا ، ان حضرات کی فراست سبحان اللہ ۔۱؎ارباب افتاء ومقتداحضرات کو زیادہ تقویٰ کا اہتمام کرنا چاہئے حضرت نافع سے روایت ہے انہوں نے اسلم سے جو کہ معتَق(آزاد کیاہوا غلام) حضرت عمر ؓ کے تھے سنا کہ ابن عمرؓ سے بیان کررہے تھے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت طلحہؓ کے بدن پر رنگین کپڑے حالت احرام میں دیکھے ،پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو گیرو ہے یامٹی ہے ،آپ نے فرمایا : تم لوگ (دین کے )پیشوا (سمجھے جاتے )ہو لوگ تمہارا اقتداء کرتے ہیں ،اگر کوئی جاہل آدمی اس(لباس) کو دیکھے یوں کہے کہ طلحہ بن عبیداللہ احرام میں رنگین کپڑے پہنے ہوئے تھے ،سوتم لوگ ایسے رنگین کپڑے مت پہنا کرو،روایت کیا اس کو مالک نے۔(تیسیر ص ۱۰۹) فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جولوگ مقتداء ہیں ان کو اور عام لوگوں کی نسبت ورع وتقویٰ میں زیادہ اہتمام مناسب اور ضروری ہے ،اور صوفیہ (اسی طرح علماء ومفتیوں کا)کا مقتدا ء ہونا ظاہر ہے پس ان کو بھی اس کی رعایت ضروری ہے ۔۲؎دنیادارمولویوں اور مفتیوں سے ا عتماد اٹھ جاتا ہے ایک روز میں راستہ میں جارہا تھا ایک بُڑھیااپنے دروازہ میں جھانک رہی تھی، مجھ کو دیکھ کر بولی بیٹا ،یہاں آنا، میں گیا تو بولی ایک مسئلہ بتادو، میں نے مسئلہ بتایا پھر کہنے لگی میں نے اس سے یعنی لکڑیوں والے مولوی صاحب سے بھی پوچھا تھا انہوں نے بھی تمہارے موافق بتلایا مگر مجھ کو یقین نہ ہوا کہ شایداپنے مطلب کو کہتے ہوں ،اب تمہارے بتلانے سے یقین ہوا، میں نے بڑی بی کو سمجھا دیا کہ علماء پر ------------------------------ ۱؎ ملفوظات حکیم الامت ص۳۲۸ج۲قسط ۳ ۲؎ التکشف عن مھمات التصوف ص ۳۰۰