آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا مکتوب گرامی برجواب حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ سرفراز نامہ نے معزز فرمایا، جواب سے بہت خوش ہوا، بہت سلیس اور بے تکلف ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد اس میں ایک خلجان پیدا ہوگیا جس کو روز مرہ لکھنا چاہتا تھا، آج جمعہ کے روز اظہار کا موقعہ ملا۔ وہ یہ ہے کہ یہ یقینی ہے کہ یہ قراء ت مثبتہ فی المصاحف اس وقت بھی متواتر تھیں ، اور گو علی التعیین یہ قراء ت ان کو نہ پہنچی ہوں ، مگر اجمالا ًان حضرات کو اتنا معلوم تھا کہ کوئی نہ کوئی قراء ت متواتر اس میں ضرور ہے اور اس کی تعیین وطلب بھی اس لیے واجب تھی کہ غیر قرآن کو قرآن میں داخل کرنا جائز نہیں ، پس انہوں نے طلب نہیں کی تو ترک واجب لازم آیا، پھر جوقراء تیں قانون کے موافق سمجھیں اور واقع میں اورا ن کے نزدیک بھی روایۃً ثابت اور صحیح نہیں تو غیر قرآن کو قرآن میں داخل کرنا لازم آیا، اوراگر طلب کیں تو ظاہر ہے کہ جو قراء ت واقع میں ثابت ہے وہی طلب سے متعین ہوگی، پھر محض مخالفتِ قانون سے اس کے انکار کے کیا معنی، بخلاف انکار عائشہؓ کے کہ جس قراء ت کو انہوں نے اختیار کیا ہے وہ بھی صحیح اور ثابت ہے اور ہر جگہ تعدد قراء ت ضروری نہیں اس لیے دوسری قراء ت کی طلب و تعیین ان پرواجب نہ ہوئی نہ ان کو دوسری قراء ت کے وجود کا احتمال ناشی عن دلیل ہوا جو طلب واجب ہوتی اور جس طریق سے وہ قراء ت بالتخفیف پہنچی وہ طریق قطعی نہ تھا، اور ظاہراً اس میں اشکال معنی کا لازم آتا تھا، اس لیے ا ن کو انکار کی گنجائش تھی، پس انکار عائشہ مقیس علیہ اسی انکار مقیس کا نہیں بن سکتا ورنہ یوں تو اب بھی جس قراء ت کا چاہے انکار اس بناء پر جائز