آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدالمرسلین محمدوعلیٰ اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعینباب ۱ فتاویٰ کی اہمیت ونزاکت مسائل فقہیہ کا معاملہ بہت نازک ہے فقہ کا فن بڑا ہی نازک ہے میں اتنا کسی چیز سے نہیں ڈرتا جتنا اس سے ڈرتا ہوں جب کوئی مسئلہ یا فتوی سامنے آتا ہے دور دور کے احتمالات ذہن میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں اب فتاوی میں دوسروں کا حوالہ دیتا ہوں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بعضے اسی کے اندر زیادہ بے باک ہیں حالانکہ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔۱؎ فرمایا: آج کل مسائل فقہی میں لوگ بہت دلیر ہیں ،سب سے زیادہ مجھ کو فقہ ہی میں بولتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا ہے مسائل کا بہت نازک معاملہ ہے اس میں ہرگز ہر شخص کو دخل نہ دینا چاہئے۔۲؎اعمال کا درجہ متعین کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے فرمایا : اعمال کا درجہ متعین کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے حضرات فقہاء نے بہت احتیاط کی ہے۔ جہاں ضروری ہوتا ہے متعین بھی فرماتے ہیں جہاں بچ سکتے ہیں بچنا چاہئے مثلاً احب إلی فرمادیا امام محمد اکثر اکرہ فرماتے ہیں اور بقدر ضرورت تو یہ بھی گویا فتویٰ ہی ہے جو سمجھنے والے تھے سمجھ گئے مکروہ تحریمی اس کو قرار دیا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ص۲۵۸ج جزء ثانی ۲؎ الافاضات ۱؍۹۴۔ ۳؎ حسن العزیز ۱؍۱۶۸۔