آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کی یہ شفقت کہ جب کبھی ایسا موقع ہوا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو سنبھالے رہے اور قولاًوفعلاًدونوں طرح اس سے باز رکھا جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا کہ جب حج کی فرضیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا کہ حج ایک ہی دفعہ فرض ہے یا ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا اور جواب نہیں دیا، اس نے پھر پوچھا پھر جواب نہیں دیا، پھر سہ بارہ پوچھا جواب نہیں دیا اور یہ فرمایا کہ اگرمیں ہرسال کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا پھر تم سے ہو نہ سکتا، واقعی حق تعالیٰ کا شکرنہ ادا ہوسکتا کہ ہم کو ایسا رہبر دیا جو ہمارے اوپر ماں باپ سے بھی زیادہ بلکہ ہماری جانوں سے بھی زیادہ شفیق ہے ، دیکھئے ہم خود اپنے اوپر تنگی کررہے ہیں اور آپ ہم کو بچاتے ہیں بس اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو اس امت پر فضل ہی کرنا تھا ۔۱؎غیر ضروری سوالات کی ممانعت حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللہ کرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السوال واضاعۃ المال(مسلم ) (ترجمہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے تمہارے لئے ناپسند فرمایا ہے قیل وقال کو اور کثرت سوال کو اور مال کے ضائع کرنے کو۔ (اس حدیث پاک میں )اگر سوال سے مراد مسائل پوچھنا ہو تو اس کی بھی کثرت سے حدیث میں منع کیاگیا ہے جس پر ظاہراً شبہ ہو سکتا ہے کہ مسائل پوچھنا تو موجب ترقی دین ہے اس کی ممانعت کیسی؟ تو میں عرض کرتاہوں کہ : اس منع سے تعجب نہ کیجئے کیونکہ کثرت سوال کامنشاء عمل نہ کرنا ہے (باریک ------------------------------ ۱؎ وعظ ذم المکروہات ملحقہ اصلاح اعمال ۴۴۷