آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جھگڑوں کے فتووں کا جواب کس طرح دینا چاہئے فرمایا کہ میرا معمول ہے کہ میں جھگڑوں کے استفتوں پر متعارف طریق پر جواب نہیں لکھا کرتا صرف ضابطہ کا جواب دیتا ہوں ۔۱؎فتنہ کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ایک شخص کا ایک خط آیا کہ ایک واعظ صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت ایک دفعہ تو واجب ہے اور دوسری دفعہ منع ہے کیایہ مسئلہ ٹھیک ہے یا نہیں ؟ ایک شخص نے لکھا تھا کہ ایک واعظ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ جو عشاء کی سنتیں پڑھے وہ کافر ہے، ایک ایسا ہی مضمون شہادت کربلا کے متعلق تھا اس قسم کے مسائل میں جو غلط فہمی سے سائل کچھ کا کچھ سمجھ کر پوچھتا ہے اور اس بناء پر جواب حاصل کرکے بانیِ فساد بنتا ہے۔ (اس قسم کے سوالات کے متعلق) میرا معمول جواب دینے میں یہ ہے کہ لکھ دیتا ہوں کہ انہوں نے کچھ اور فرمایا ہوگا عالم آدمی کبھی اس قسم کی بات نہیں کہہ سکتا آپ نے غلطی سے کچھ اور خیال کرلیا ہے اور اگر واقعی یہی بات ہے تو خود ان کے ہاتھ سے لکھا کر بھیجئے فرمایا کہ پھر کوئی کچھ نہیں لکھتا۔یہ طرز رفع فتنہ و انسداد فساد کے لیے بہت مستحسن ہے۔۲؎اگر کوئی فتویٰ نہ مانے ایک واقعہ اور پیش آیا کہ جس شخص نے حضرت سے کوئی فتوی لیا تھا اس نے اس پر مناظرانہ انداز سے اعتراضات لکھ کر بھیجے تھے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ: ------------------------------ ۱؎ ملفوظات اشرفیہ ص:۸۵۔۲؎ دعوات عبدیت ۱۳۴ج۱