آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل(۲) ضرورت کے وقت دوسرے مذاہب پر فتویٰ دینے کی گنجائش ضرورت شدیدہ اور ابتلائے عام کے وقت حنفیہ کے نزدیک دوسرے ائمہ کے مذہب کو اختیار کرکے اس پر فتویٰ دے دینا جائز ہے ،لیکن عوام کو خود اپنی رائے سے جس مسئلہ میں چاہیں ایسا کرلینے کی اجازت نہیں ،بلکہ بڑی اختیاط کی ضرورت ہے۔ اور اس زمانہ میں احتیاط اس طرح ہوسکتی ہے کہ جب تک محقق ومتدین علمائے کرام میں سے متعددحضرات کسی مسئلہ میں ضرورت کا تحقق تسلیم کرکے دوسرے امام کے مذہب پر فتویٰ نہ دیں اس وقت تک ہرگزاپنے امام کے مذہب کو نہ چھوڑے ، کیونکہ مذہب غیر کو لینے کے لئے یہ شرط ہے کہ اتباع ہویٰ کی بناء پر نہ ہو، بلکہ ضرورت داعیہ کی وجہ سے ہو اور ضرورت وہی معتبر ہے جس کو علمائے اہل بصیرت ضرورت سمجھیں ۔ اور اس زمانہ پر فتن میں یہ دونوں باتیں جمع ہونا یعنی کسی ایک شخص میں تدین کامل ومہارت تامہ کا اجتماع نایاب ہے ،اس لئے اس زمانہ میں اطمینان کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ کم ازکم دوچار محقق علماء دین کسی امر میں ضرورت کو تسلیم کرکے مذہب غیر پر فتویٰ دیں بدون اس کے اس زمانہ میں اگر اقوال ضعیفہ اور مذہب غیر کو لینے کی اجازت دی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ ہدم مذہب ہے ،کمالایخفی واللہ اعلم بالصواب۔(الحیلۃ الناجزۃ ص۴۶ ) فرمایا: کہ دیانات میں تو نہیں لیکن معاملات میں جن میں ابتلاء عام ہوتا ہے دوسرے امام کے قول پر بھی اگر جواز کی گنجائش ہوتی ہے تو اس پر فتویٰ دفع ِحرج کے لیے دے دیتا ہوں اگر چہ ابو حنیفہؒ کے قول کے خلاف ہو، اگر چہ مجھے اس گنجائش پر پہلے سے اطمینان تھا لیکن میں نے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ سے اس کے متعلق اجازت لے لیمیں نے دریافت کیاتھا کہ معاملات میں محل ضرورت میں دوسرے امام کے قول پر فتویٰ دینا جائز ہے ؟فرمایا کہ جائز ہے۔ (دعوات عبدیت ص۱۲۴ج۹)