آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
الجواب: اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگرننانوے باتیں کفر کی موجب پائی جاویں تب بھی فتویٰ نہ دیں گے ،ننانوے تو بہت ہوتی ہیں اگرایک امر بھی موجب کفر یقینی پایا جائے تب بھی فتویٰ دیدیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ خود اس امر میں بہت سے احتمال ہیں بعض احتمالات پر تووہ موجب کفر ہے اور وہ احتمالات ننانوے ہیں ،اوربعض احتمال پر وہ موجب کفر نہیں اور وہ ایک ہے تو اس صور ت میں اس امر کو محمول اسی احتمال پرکریں گے جوموجب کفر نہیں اور تکفیر سے احتیاط کریں گے ۔۱؎کافرکوکافرکہنا کسی کانام لے کر کافر کہنا یالعنت کرنا بڑاگناہ ہے، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت ،جھوٹوں پر لعنت ، مگر جن کانام لے کر اللہ ورسول نے لعنت کی ہے یا ان کے کفر کی خبردی ہے ،ان کوکافر ملعون کہنا گناہ نہیں ۔۲؎کافر کوکافر کہنا چاہئے یانہیں ؟ کاندھلہ میں ایک مرتبہ مولویوں کے مجمع میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ کافر کو کافرکہنا کیساہے ؟ایک جماعت یہ کہہ رہی تھی کہ تہذیب کے خلاف ہے اور ایک جماعت کہہ رہی تھی کہ جائز ہے کیونکہ قرآن میں بکثرت کافر کا لفظ استعمال کیاگیاہے ،پہلی جماعت نے اس کا یہ جواب دیا کہ قرآن میں خطاب کے موقع میں کافروں کو کافر نہیں کہا گیا (بلکہ یاایہاالناس سے خطاب کیاگیا ہے ) اور گفتگو اس میں ہے کہ کافروں کو کافر کہہ کرخطاب کرنا کیسا ہے۔ پھر ایک مولوی صاحب کو حکم بنایاگیا کہ اس اختلاف کا فیصلہ کریں انہوں نے کہا کہ کافروں کو کافر کہاگیاہے قُلْ یَااَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ۔ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ص۳۹۳ج۴ ۲؎ تعلیم الدین ص:۲۴۵