آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ترجمہ: پھر بھی یہ لوگ اگر آپ سے حجتیں نکالیں تو آپ( ﷺ)فرمادیجئے کہ میں اپنا رخ خاص اللہ کی طرف کرچکا اور جو میرے پیروتھے وہ بھی ۔ فائدہ: اس میں دلالت ہے (اہل حق و)اہل طریق کی اس عادت پر کہ جب حق بالکل واضح ہوجائے مگر مخاطب کی حالت سے معلوم ہوکہ یہ قبول نہیں کرتا تواس وقت مباحثہ ترک کردیتے ہیں اور یہ استنباط اس آیت کی مشہور تفسیر پر ہے کہ یہ قول’’ أسلمت وجہی‘‘ مجادلہ سے اعراض ہے ۔۱؎ وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ الآیۃ(سورہ یونس) ترجمہ: اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرا کیا ہوا مجھ کو ملے گا اور تمہارا کیا ہوا تم کوملے گا، تم میرے کئے ہوئے کے جواب دہ نہیں ہو اور میں تمہارے کئے ہوئے کا جواب دہ نہیں ہوں ۔ فائدہ: یہی عادت ہے(اہل حق و) اہل طریق کی مناظرہ میں جس وقت وہ خصم کی جانب سے ضداور ہٹ دیکھتے ہیں ، بخلاف الفاظ پر ستوں کے کہ وہ مناظرہ کے موقع پر کبھی ایسی بات نہ کہیں ۔ ۲؎قابل تعریف فقیہ ومفتی عن علی ؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ نعم الرجل الفقیہ فی الدین ان احتیج الیہ نفع ،وان استغنی عنہ اغنی نفسہ‘ ‘‘ اخرجہ‘ رزین۔ (ترجمہ )حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ دین کا عالم بھی خوب(یعنی قابل تعریف) ہوتا ہے ،اگر کوئی اس کے پاس ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن، مسائل السلوک ص۹۳ ۲؎ بیان القرآن، مسائل السلوک ص۲۴۹