آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کر خطا سے بری سمجھتا ہوں قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ مَنْ اَفْتٰی بِغَیْرِ عِلْمٍ فَاِثْمُہُ عَلٰی مَنْ اَفْتَاہُ۔ لہٰذا حضرت کو معذور وبری جان کر ان خود غرضوں کو آثم اور ضال و مضل ومکتسب امتعہ دنیویہ در پردہ دین یقین کرتا ہوں اور واللہ باللہ کہ تم پر خاصۃً ہرگز مجھے یہ گماں نہیں ہے بلکہ تم کو جو کچھ پیش آیا ہے بفرط عقیدت واقع ہوا ہے۔ میں تم کو بھی اس امر میں معذور سمجھتا ہوں اور تمہارے واسطے دعاء خیر کرتا ہوں اگر چہ میں تمہارا شاکی بھی ہوں مگر یہ شکوہ میرا بوجہ محبت کے ہے کیونکہ شکوہ اپنوں کا ہی ہوتا ہے غیروں سے کسی کو شکوہ نہیں ہوتا امر اول کا جواب تمام ہوچکا۔ امر ثانی کے باب میں جو کچھ آپ نے تدبیریں لکھی ہیں اس میں بندہ کچھ دخل نہیں دیتا جس طرح مناسب جانو،اور مصلحت سمجھو اس کی تدبیرکرو، غرض خلق خدا کو مبتدع کے پنجہ سے چھڑا نا منظور ہے جس طرح حاصل ہو، اور جو تشدد کہ موجب فساد ہو اس سے بچنا مناسب ہے، اس مرتبہ کے مواعظ و بیانات آپ کے جو تھانہ بھون ہوئے ان کو سن سن کر بندہ بہت خوش ہوا اور تمہارے واسطے دعائے خیر کرتا ہوں ۔ فقط اس تحریر میں اگر کوئی آپ کو شبہ ہو تو اس کے اظہار کی اجازت ہے ہرگز شرم نہ کریں ، بندہ ہرگز ناخوش نہ ہوگا اگر مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہوگی تو بشرط فہم اس کے قبول کرنے میں دریغ نہ ہوگا، انشاء اللہ تعالیٰ۔ ۵؍محرم الحرامتیسرا خط از مولانا اشرف علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ از کمترین خدام محمد اشرف علی: بعالی خدمت سراپا برکت دست گیر درماندگان راہنمائے راہ گم گشتگاں حضرت مولانا الحاج الحافظ المولوی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم۔ بعد تسلیم نیاز خادمانہ التماس ہے کہ والا نامہ عین انتظار میں شرف صدور لایا حضور نے جو اس نادان ناکارہ کی دستگیری فرمائی اگر ہر بُن مُو سے اس کا شکر ادا کروں