آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایک ہی مفتی کا انتخاب کرلینا چاہئے اسی طرح مذہب کے علمائِ اخیار میں سے ایک ہی کو متعین کرلینے میں یہی حکمت ہے کیونکہ زمانہ کی حالت بدل گئی ہے لوگوں پر غرض پرستی غالب ہے اور ایک مذہب کے علماء میں بھی آپس میں مسائل کے اندر اختلاف ہے پس اگر ایک عالم کو متعین نہ کیاجائے گا تو اس میں اندیشہ ہے کہ کہیں غرض پرستی میں نہ پڑجائیں کہ جس عالم کی رائے نفس کے موافق ہوئی اس کو مان لیا اور جس کی رائے خلاف ہوئی اس کو نہ مانا۔۱؎ایک ہی مسئلہ کو کئی جگہ دریافت کرنے کی خرابی (کچھ لوگ) ایک مسئلہ کو کئی جگہ پوچھتے ہیں اور بعض اوقات جواب مختلف ملتا ہے تو اس وقت یا تو تعیّن راجح (یعنی کس فتویٰ کو ترجیح دیں اس)میں پریشان ہوتے ہیں یا جس میں نفس کی مصلحت ہوتی ہے اس پر عمل کرتے ہیں اور کبھی اس کی عادت ہوجاتی ہے تو استفتاء سے یہی مقصود ہوتا ہے کہ نفس کے موافق جواب ملے اور جب تک ایساجواب نہیں ملتا برابر اس کدو کاوش میں رہتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ وضع تدین سے بہت بعید ہے، سراسر اتباع ہویٰ وتلعُّب فی الدین ہے (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ، اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اپنے نفس کی پیروی کرے ،یعنی یہ صورت دین سے دور اور دین کے ساتھ کھیل اور خواہش نفس کی پیروی کے مرادف ہے)۔۲؎ایک مفتی کا جواب دوسرے مفتی کے سامنے نقل کرنے کا نقصان بعض اوقات ایک مجیب (مفتی) کا جواب دوسرے مجیب کے سامنے نقل کردیا جاتاہے چونکہ بعض اوقات طبیعت کا رنگ خاص ہوتا ہے اور بعض اوقات نقل کا ------------------------------ ۱؎ اشرف الجواب ۲؍۱۲۶۔ ۲؎ اصلاح انقلاب ص۳۔