آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کرسکے گی چنانچہ ارشاد ہے قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ الخ ۔ ؎۱دینی وشرعی حکم کا استخفاف موجب ِتکفیر ہے امور دین خواہ اصول ہوں یا فروع ،فرائض وواجبات ہوں یا سنن ومستحبات، عبادات ہو ں یاعادات حتیٰ کے عمامہ کی ہیئت مسنونہ، قصداً استخفاف ہو یادلالۃً(ان سب سے کفر ہوجائے گا)تفصیل کے لئے اصل کتاب ملاحظہ فرمائیں ۔۲؎کفر کا فتویٰ دینے میں احتیاط کے حدود امام ابوحنیفہؒ نے کسی اسلامی فرقہ کو جب تک کہ وہ ضروریات دین کا منکرنہ ہو ، کافر نہیں کہا ،اور یہ قاعدہ مقررکیاہے لاَنُکَفِّرُاَہْلَ الْقِبْلَۃِ (کہ ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے) بعض لوگ تشددکرتے ہیں کہ مسلمان کوکافر اور منافق کہہ دیتے ہیں یہ بڑی غلطی اور جرأت کی بات ہے ،جب وہ زبان سے اسلام ظاہر کرتا ہے اور آج کل کوئی وجہ اس بات کی نہیں رہی کہ نفاق کا وتیرہ اختیارکیاجائے پھرکسی کوکافر اور منافق کہنے کے کیا معنیٰ؟ کافربڑا سخت لفظ ہے بڑی احتیاط چاہئے ،کسی کوکافر اس وقت کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ کوئی فعل ایسا کرتا ہو جومحتمل تاویل نہ ہو، مثلاً کوئی شخص بت پرستی بلااکراہ کھلم کھلاکرتا ہو، تواس وقت اس کوکافر کہہ سکتے ہیں اور جب ایک شخص بت پرستی سے نفرت رکھتا ہے زبان سے کلمہ پڑھتا ہے تو اس کی تکذیب کرنا اور کافر کہنا کیا معنیٰ؟ ظاہر بات ہے کہ کافر اصل میں اس کوکہتے ہیں جودل سے حق تعالیٰ کامنکر ہو،اور جو شخص زبان سے انکار کرتا ہے اس کو کافر اسی وجہ سے کہا جاتاہے کہ ہمارے نزدیک وہ دل سے منکر ہے کیوں کہ اس کی زبان سے انکار سناگیا اور زبان دل کی ترجمان سے توکفر کا حکم اس واسطے لگایاگیا ہے کہ زبان کے ذریعہ سے اس کا انکار قلبی معلوم ہوگیا ۔ غرض کسی کو کفر لسانی کی وجہ سے کافر کہنا بھی دراصل کفر قلبی ہی کی وجہ سے ہے مگر ------------------------------ ۱؎ کمالات اشرفیہ ۳۹۸ امدادالفتاویٰ ۶/۱۰۷ ۲؎ بوادرالنوادر ص۹۴۲رسالہ جزل الکلام فی عزل الامام