آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اقول: فقہاء کا عضولا تعیش بدونہ پر جوکہ ایسا قاعدہ کلیہ ہے کہ وجہ و رأس بھی اس میں داخل ہوسکتا تھا، کفایت نہ کرنا اور ممحوۃ الوجہ اوالرأس کا مستقلًا لانا مشعر اس امر کا معلوم ہوتا ہے کہ وجہ ورأس کا وجود یا عدم محض اسی حیثیت سے معتبر نہیں کہ وہ عضو لا تعیش بدونہ کا وجود یا عدم ہے، ورنہ اس کوجدا گانہ ذکر کرنے کی حاجت نہ تھی، بلکہ وجہ ورأس میں قطع نظر حیثیت مذکورہ سے نیز ایک خاص شان خصوصیت ہے کہ صرف اس کے مجموع کا وجود حکما پوری تصویر کا وجود ہے گو وہ اعضاء لایعیش بدونہا سے خالی ہو، اسی طرح اس مجموع کا عدم پوری تصویر کا عدم ہے، گو بقیہ اعضاء پر مشتمل ہو پس جب مجموع وجہ ورأس ہوگا گوقفا وغیرہ نہ ہو اس کو تصویر کہا جائے گا، اور جب مجموع وجہ ورأس نہ ہوگا گو قفا وغیرہ ہو اس کو تصویر نہ کہا جائے گا، فقط آخر جمادی الاولیٰ ۱۳۲۸ھ۔ انتہی ما قال زید وعمرو فبینوا مالحکم فیما قالا۔؟حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کا محاکمہ الجواب: حامداً و مصلیاً! بندۂ ناچیز باعتبار اپنے علم و فہم کے اس قابل نہیں ہے کہ علماء اعلام کے اختلاف کا فیصلہ کرسکے، مگر ہاں امتثالا للامر الشریف اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا ہے عرض کرتا ہے۔ روایات فقہیہ کے دیکھنے سے یہ امر واضح ہے کہ عمل تصویر اور اقتناء تصویر میں فقہاء کے نزدیک فرق ہے تصویر سازی کو مطلقاً حرام اور ناجائز تحریر فرماتے ہیں اور اقتناء تصویر (کو) مطلقاً ناجائز نہیں لکھتے، بلکہ بعدتغیرات جائز تحریر فرماتے ہیں لہٰذا ان وجوہ سے زید کا قول حق معلوم ہوتا ہے کہ فوٹو لینے میں کسی جاندار کے خواہ وجہ کی طرف سے لیا جائے، یا پشت کی طرف سے عدم جواز ہو اگر چہ زید کی تعمیم مستبین