آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عالم اپنی قوم میں مثل نبی کے ہوتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ۔ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تیسرا ادب سکھلایاگیا ہے کہ جس وقت آپ اپنے مکان اور آرام گاہ میں تشریف فرماہوں اس وقت باہر کھڑے ہوکر آپ کو پکارنا خصوصاً گنوارپن کے ساتھ کہ نام لے کر پکاراجائے یہ بے ادبی ہے، عقل والوں کے یہ کام نہیں ۔ امام بغوی نے بروایت قتادہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ جوآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جن کا ذکر اوپر آیا ہے ، یہ دوپہرکے وقت مدینہ میں پہنچے جب کہ آپ کسی حجرہ میں آرام فرمارہے تھے، یہ لوگ اعراب(دیہات کے لوگ)آدابِ معاشرت سے ناواقف تھے انہوں نے حجرات کے باہرہی سے پکارنا شروع کردیا ،اخرج الینا یامحمد اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے کی ممانعت اور انتظار کرنے کا حکم دیاگیا ،مسنداحمد ، ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت مختلف الفاظ سے آئی ہے (مظہری) ۔ صحابہ وتابعین نے اپنے علماء ومشائخ کے ساتھ بھی اسی ادب کااستعمال کیا ہے ،صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب میں کسی عالم صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنا چاہتا تھاتوان کے مکان پر پہنچ کر ان کو آواز یادروازہ پر دستک دینے سے پرہیز کرتا اور دروازہ کے باہر بیٹھ جاتا تھا کہ جب وہ خود ہی باہر تشریف لاویں گے اس وقت ان سے دریافت کروں گا ،وہ مجھے دیکھ کر فرماتے کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ،آپ نے دروازہ پر دستک دے کر کیوں نہ اطلاع کردی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عالم اپنی قوم میں مثل نبی