آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوسرے مذہب پر فتویٰ دینے کے سلسلہ میں نہایت ضروری تنبیہ ضرورت کی وجہ سے مذہب غیر کولے کر اُسی چیز کے جو از پر فتویٰ ہوسکتا ہے جس کا جواز مذہبِ غیر میں منصوص ہو، غیر مجتہد کو یہ جائز نہیں کہ منصوص فی مذہب الغیر پر قیاس کرکے کسی ایسی چیز کا جواز ثابت کرے جو دوسرے مذہب میں منصوص نہ ہو اور پھر ضرورت کی وجہ سے اس اپنے مستخرجہ جواز پر فتویٰ دے جیسا کہ بعض لوگوں نے علامہ شامی ؒ کے زمانہ میں ضرورت کا دعویٰ کرکے تلاوتِ قرآن علی القبر وغیر کی اجرت کو جائز کہا تھا قیاسا علیٰٰ جواز تعلیمہ المنصوص فی مذہب الامام مالک والشافعی،اور اس مقام پر علامہ کا اصل مقصود اسی قیاس فاسد کو ردکرنا ہے ۔ حاصل ردیہ ہے کہ اولاً استیجار علی التلاوۃ کی ضرورت غیر مسلم، جوخروج عن المذہب کو جائز کرنے والی ہے اور اگر بالفرض ہم اس کی ضرورت کو تسلیم بھی کرلیں تب بھی جائز نہیں ہوسکتی،کیونکہ کسی مذہب میں بھی اس کا جواز منصوص نہیں اور تعلیم جو منصوص ہے اس پر اہل زمانہ کے لئے بوجہ غیر مجتہد ہونے کے تلاوت کو قیاس کرنے کا حق نہیں ہے،اگر چہ ایصال نفع بکتاب اللہ الی الغیر تلاوت میں بھی موجود ہے جو اصل مسئلہ یعنی رقیہ وارِدہ فی الحدیث کی علت ہے اور اسی علت کے سبب امام مالک ؒوشافعیؒ نے تعلیم القرآن کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔اور اسی واسطے فلنا ان نمنعہ کے بعدوان وجدت فیہ العلۃ فرمایا ہے یعنی اگر چہ اصل مسئلہ منصوصہ فی مذہب کی علت بھی پائی جاوئے(یعنی )وان وجدت فیہ العلۃ میں علت سے مراد علۃ الحکمہ فی اصل المسئلۃ المنصوصۃ فی مذہب ہے نہ کہ علۃ الضرورۃ (الحیلۃ الناجزۃ ص۴۹) تنبیہ : مذہب غیر پر عمل کرنے کی شرط قضاء قاضی ہے (ان مسائل اور ان صورتوں میں ) جس صورت میں کہ اس عمل سے الزام علی الغیرورفع حق غیر ہوتا ہو، واللہ اعلم۔(امدادالفتاویٰ ص۵۱۱ج۲)