آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مفتی کو تجربہ کار ماہر اور اپنے زمانے کے عرف و حالات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے مفتی کو بہت تجربہ کار اور فہیم ہونا چاہئے، فتوی دینا گویا امراض روحانی کا علاج ہے جب امراض جسمانی کا معالج وہی ہوسکتا ہے جو تجربہ کار ہو تو امراض روحانی کا معالج نا تجربہ کار کیسے ہوسکتا ہے۔۱؎ فرمایا: فقہاء فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے زمانہ کے عادات و اطوار سے ناواقف ہو وہ جاہل ہے۔ ایک شخص نے مجھ سے مسئلہ پوچھا کہ میری توند بڑھ گئی ہے اور زیر ناف کا بدن نظر نہیں آتا، تو بال کس طرح صاف کروں میں نے کہا ہڑتال اور چونا سے صاف کرلیا کرو، وہ یہ سن کر بہت دعائیں دینے لگا اور ایک بڑے عالم کا نام لے کر کہا کہ میں نے ان سے دریافت کیا تھا انہوں نے فرمایا کہ بیوی سے صاف کرالیا کرو، میں نہایت پریشان تھا آپ نے مجھ کو بڑی پریشانی سے نجات دی، وہ بڑے بھاری عالم تھے اور ہڑتال کے خواص سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایسی غلطی کی، بھلا بیوی اس لیے ہے کہ اس سے یہ کام لیا جائے، طبیعت کس طرح گوارہ کرسکتی ۔۲؎ضرورت کی بنا پر دوسروں سے تحقیق کروانا جس زمانہ مین کان پور میں تھا اس زمانہ میں طلسماتی انگوٹھیوں کا بہت چرچا تھا میں نے ایک ایسے شخص سے جو ہر قسم کے جلسوں میں آتے جاتے تھے کہا کہ تم ان واقعات کی تحقیق کرکے مجھ سے بیان کرو، چنانچہ تحقیق کے بعد آئے اور انہوں نے بیان کیا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس الحکمت ص:۲۹۔ ۲؎ الفضل العظیم ص:۲۳ و ۲۵۔ ۳؎ الافاضات الیومیہ ۸؍۴۰۱ قسط:۲