آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایک حاکم غیر مسلم نے نکاح اول کے فسخ ہونے کا حکم دے کر نکاح ثانی کی اجازت دے دی تو ظاہراً کارروائی ہوگئی مگر شرعاً یہ کارروائی معتبر نہیں ہوئی یعنی اس سے نکاح اول فسخ نہیں ہوا اور نکاح ثانی صحیح نہیں ہوا، تو تمام عمر ناجائز ہمبستری کا گناہ زوجین کو رہا، اس لئے اس کی کوشش توبہت زیادہ ضروری ہے ، حلال وحرام کا قصہ ہے جو بہت نازک ہے اور اس کی ضرورت تمام قوم کے لئے عام ہے اس لئے اس کا اہتمام بہت زیادہ موجب ثواب ہوگا، اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اہل قلم اس کی مصلحتوں (ضرورتوں ) کو ظاہرکریں اور پھر درخواست لکھ کر اس پر کثرت سے دستخط کراکر پیش کریں ،اور حکومت سے منظور کرائیں امید ہے کہ گورنمنٹ ضرور اس پر توجہ کرے گی ۔۱؎آج کل فسخ نکاح کی صورت اور اس کا طریقہ آج کل اس کی صورت یہ ہے کہ اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو کسی مسلمان حاکم کییہاں جس کو یہ اختیارات حاصل ہوں نالش کردو، اگر چہ وہ کافرکا مقررکیا ہو اہو، اگر اس کو ایسے اختیارات نہیں دیئے گئے تو حاکم بالاسے رجوع کرو کہ اس کو اختیار دے دیں خواہ اسی ایک مقدمہ کے واسطے پھر اگر وہ فسخ نکاح کردے گا تو فسخ ہوجائے گا ،اور ریاستوں میں قاضی کا فسخ کردینا کافی ہے۔ غرض حاکم کے فسخ کرنے سے نکاح فسخ ہوگا ،محض باپ کے کہہ دینے سے کہ میں راضی نہیں ہوں کچھ نہ ہوگا۔۲؎ سوال: جن مسائل میں قاضی کی ضرورت ہے ان میں انگریزی عدالت کا حکم وفیصلہ وہی حکم رکھتا ہے یانہیں ؟ جواب: اگر صاحب اجلاس مسلم ہو وہ شرعاً قاضی ہے ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ بوادرالنوادر ص۴۵ج۱ ۲؎عضل الجاہلیہ ملحقہ حقوق الزوجین ص۳۸۰ ۳؎ امدادالفتاویٰ ص۳۳۴ج۳