آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اور اس سے لوگوں کو دین کا نقصان پہنچے گا پھر عدم اعتماد کی وجہ سے کوئی خدمت دین کی نہ لے سکیں گے۔ دوسرے اگر فیصلہ بھی کردوں تو ظاہر ہے کہ وہ ایک فریق کے موافق اور دوسرے کے مخالف ہوگا سو جس کے مخالف ہو ا اگر وہ تسلیم نہ کرے تو میرے پاس اس کے نفاذ کاکیا ذریعہ ہے، میری کوئی حکومت تو ہے نہیں محنت بھی کی اور وقت اور دماغ بھی صرف کیا اور نتیجہ کچھ نہیں ہوا اس سے کیا فائدہ۔۱؎ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت قصبہ میں ایک عالم مدرس کی ضرورت ہے، اگر حضرت مولوی صاحب سے فرمادیویں اور وہ قبول فرمالیں تواہل قصبہ کو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بہت نفع ہوگا ،فرمایا کہ فرمانا تو بڑی چیز ہے میں تو ایسے معاملات میں رائے بھی کسی کو نہیں دیتا بلکہ خود صاحب معاملہ کے مشورہ لینے پر بھی کہہ دیتا ہوں کہ مجھ کو آپ کے مصالح اور حالات کا کماحقہ علم نہیں میں مشورہ سے معذور ہو ں آپ خود اپنے مصالح پر نظر کرکے جواپنے لئے بہتر مناسب خیال کریں عمل کرلیں ، ہاں دعاسے مجھ کوانکار نہیں ،عافیت اسی میں ہے کہ کسی کے معاملات میں دخل نہ دے ،ہر شخص کوآزادی رہے ، البتہ شریعت کے خلاف کوئی کام نہ ہو، مولوی صاحب یہاں پر موجود ہیں ان سے خود تمام معاملات طے کرلئے جاویں ، میر ی طرف سے بالکل آزادی ہے، میر امعمول ہے کہ اگر دونوں طرف جائز بات ہو تو کسی جانب پر مجبور نہیں کرتا بلکہ دونو ں طرف آزاد ی دیتاہوں حتی کہ اگر کسی ایک شق میں میری بھی کوئی مصلحت ہوتب بھی اپنے مصالح پر ان کے مصالح کو ترجیح دیتاہوں اور نہایت صفائی کے ساتھ اپنی اس تخییر کو ظاہر کردیتاہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے میری کوئی بات الجھی ہوئی نہیں ہوتی ،ہربات نہایت صاف ہوتی ہے اگر مخاطب ذرا بھی فہیم ہو تو فوراً سمجھ میں آجاتی ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۲؎ کمالات اشرفیہ ص۳۹۱ملفوظ ۲۱۶