آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حال بیان کرتے ہو اگر اس نسخہ سے آرام نہ ہو تو وہ دوسرا نسخہ بدلتا ہے اس کو بھی اسی جدوجہدکے ساتھ تیارکراکے استعمال کراتے ہو اور اگر اس معالجہ سے آرام نہ ہو تو اکتا کر علاج نہیں چھوڑتے بلکہ برابر کوشش کرتے رہتے ہو بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض بیماریوں سے شفا نہیں ہوتی پھر بھی برابر علاج کرتے ہو حتیٰ کہ موت آنے تک بھی مریض کے منھ میں دوا ٹپکاتے ہو، یہ برتاؤ ہوتا ہے ہمارا مریض کے ساتھ ۔ اب غورتو کیجئے !واقعی بڑی غیرت اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جس مرض کو ارسطو اور بقراط اور جالینوس مرض بتلادیں اس کا تو تم کواتنا فکر اور اس قدر اہتمام اور غضب کی بات ہے کہ جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض بتادیں اس کا اہتمام تو کیاکسی درجہ میں خیال تک نہ ہو بلکہ اس کو بیماری بھی نہیں جانتے۔۱؎اپنی فکر کرواور اپنی ضرورت ہی کا مسئلہ پوچھو اب اس حدیث کے اندر تھوڑا اور غورکروتوسوال کے (بعض) آداب بھی اسی حدیث سے نکلتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ دیکھو کہ حکیم جی سے اول آدمی اپنے امراض کے متعلق پوچھتا ہے یہ نہیں کرتا کہ خود تو سیکڑوں بیماریوں میں مبتلا ہے اور اپنے پڑوسیوں کے امراض حکیم جی کے سامنے گارہے ہیں اور وہ بھی بلاوجہ، کیونکہ ان کا معالجہ اس کو مقصود نہیں اگر ایسا کوئی کرے تو اس کوبیوقوف کہاجاوے گا،اسی طرح طبیب روحانی یعنی عالم (و مفتی)سے اگر ملنے کا اتفاق ہو تو اپنے متعلق جو مسائل ہیں جن کی تم کو ضرورت ہے ان کا سوال کرو ایسانہ کروکہ دوسروں کی عیب جوئی کے واسطے مسائل پوچھو،ورنہ اس کی توایسی مثال ہوگی کہ خود تو دِق(ٹی بی کے مرض ) میں مبتلا ہے او ردوسرے کے پاؤں میں جو موچ آگئی ہے اس کا نسخہ لکھوارہے ہیں ۱؎ ۔ ------------------------------ ۱؎ وعظ السوال ملحقہ اصلاح اعمال ص۳۲۶