آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فہرست میں داخل سمجھ لیجئے، اگر وہ کہتا کہ سب کی وجہ معلوم ہے تو میں کہتا کہ میں سننا چاہتا ہوں پھر ایک ایک کو پوچھتا بس وہ شخص بالکل خاموش ہوگیا کہ اب میں کیا کروں ، مولانا خلیل احمد صاحبؒ نے خوش ہوکر فرمایا کہ تم نے دو گھنٹہ کا جھگڑا اس قدر جلد ختم کردیا۔ ۱؎ایک عامی شخص کاجزئی مسئلہ میں دلیل کا مطالبہ اور حضرت تھانویؒ کا جواب ایک نابینا شخص نے مجھ سے ایک فرعی مسئلہ کی دلیل پوچھی میں نے کہا آپ بڑے محقق معلوم ہوتے ہیں آپ کو ہر بات کی تحقیق کا شوق ہے اس فرعی مسئلہ کی تحقیق سے مقدم اصول دین کی تحقیق ہے وہ آپ غالباً کرچکے ہوں گے تب ہی تو فرع کی تحقیق کی نوبت آئی ہے۔ اگر یہ بات ہے تو میں اصل الاصول یعنی توحید کے مسائل کی دلیل پوچھتا ہوں اور اس پر ملاحدہ کے شبہات کروں گا ذرا میرے سامنے بیان تو کیجئے آپ نے اس کے متعلق کیا تحقیق کرلی ہے اورنقلی جواب نہ دینا، کیونکہ توحید کے ثبوت کے لیے عقلی دلیل چاہئے کیونکہ مخاطبین غیر مسلمین ہیں کہنے لگے یہ تو میں نہیں کرسکتا میں نے کہا ڈوب مرو، اصل الاصول میں تو تقلید کرتے ہیں اور فرع میں تحقیق کا شوق ہوا ہے۔۱؎عنوان اور طرز تعبیر کا فرق فرمایا کہ عنوان کا بھی بڑ ااثر ہوتا ہے، بات ایک ہی ہوتی ہے مگر تعبیر کا طریقہ جدا جدا ہوتا ہے، مثلاً مولانا شہیدؒ بی بی فاطمہ کے نام پر کونڈوں کو منع فرمایا کرتے تھے۔ شاہی خاندان کی ایک بڑی بی نے حضرت شہیدؒ کوبلایا اور کہا کہ بیٹا ہم نے سنا ہے تم بی بی فاطمہ کے نام کے کونڈوں کو منع کرتے ہو؟ حضرت نے فرمایا کہ میری کیا مجال ہے ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص ۹۸