آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ان مشکلات کے حل کا طریقہ ہندوستان کی جن ریاستوں میں قاضی شرعی موجود ہیں وہاں تو معاملہ سہل ہے،لیکن گورنمٹی علاقوں میں جہاں یہ صورت نہیں ان میں وہ حکام جج وغیرہ جولوگ گورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں اگر وہ مسلمان ہوں اور شرعی قاعدہ کے موافق فیصلہ کریں تو ان کا حکم بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے ،اور اگر مسلمان نہ ہوں تو ان کا فیصلہ کالعدم ہے حتیٰ کہ اگر کوئی ججوں یاممبروں وغیرہ کی کمیٹی فیصلہ کرے تو ان سب کا مسلمان ہونا شرط ہے ،اگر ایک جج یاممبر وغیرہ بھی غیر مسلم ہو تو شرعاً فیصلہ معتبر نہیں ۔قاضی نہ ہونے کی صورت میں شرعی پنچایت کے ذریعہ مسئلہ کا حل اور اگر کسی جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو یامسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کا قانوناً اختیار نہ ہویا مسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں مذہب حنفی کے مطابق عورت کی علیحدگی کے لئے بجز خاوند کی طلاق یا خلع کے کوئی صورت نہیں ،لیکن اگر خاوند طلاق اور خلع پر بھی کسی طرح راضی نہ ہویا مفقوددیا مجنون یانابالغ ہونے کی وجہ سے اس سے طلاق وخلع نہ ہوسکے تو اس وقت مذہب امام مالک ؒ کے موافق جس کا اختیار کرنا بضرورت شدیدہ حنفیہ کے نزدیک بھی جائز ہے ، مسلمانوں کی جماعت کا حکم بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجائے گا ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ محلہ یا بستی کے دیندار (اور بااثر) مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے جن کا عدد کم ازکم تین ہواپنا معاملہ پیش کیا جائے اور وہ جماعت واقعہ کی تحقیق کرکے شریعت کے موافق حکم کردے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزۃ