آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مکالمہ کی تفصیل حضرت تھانویؒ کی زبانی ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ سنا ہے اوقاف کے متعلق حضرت والا کی خدمت میں تحقیق مسائل کیلئے ایک وفد آیا تھا ، فرمایا کہ جی ہاں آیاتھا جو نوشخصوں پر مشتمل تھا،سب انگریزی خوان اور بڑے بڑے بیرسٹر اوروکلاء تھے ان سے گفتگو ہوئی اس وقت سب گفتگوتو محفوظ نہیں مگر اس کا خلاصہ بیان کرتاہوں ، میں نے پہلے تو بطور اصول موضوعہ کے شرائط گفتگوطے کرلئے تھے ۔ مثلاً ایک یہ کہ جو بات گفتگو کے وقت یاد ہوگی عرض کردوں گا نہ یادہوگی توعذر کردوں گا اگر پھر بھی اس کاجواب مطلوب ہوتو آپ ایک تحریری یادداشت لکھ کردے جائیے گا، بعد میں جواب بھیج دیاجائے گا۔ دوسرے یہ کہ آپ کو صرف مسائل پوچھنے کا حق ہوگا،دلائل پوچھنے کا حق نہ ہوگا اسی طرح حکمتیں اور علل اور اسرار کے دریافت کرنے کا حق نہ ہوگا ، نیز ہم جو مسئلہ بیان کریں گے وہ درمختار ،شامی ،کنزالدقائق سے بیان کریں گے وہ قابل تسلیم ہوگا ، صرف تصحیح نقل ہمارے ذمہ ہوگی اس لئے کہ ہم قانون سازنہیں قانون داں ہیں ۔ تیسرے یہ کہ عقلیات میں گفتگو کرنے کا آپ کوحق نہ ہوگا صرف منقولات سے ہربات کا جواب دیاجائے گا، میں نے ایک پرچہ لکھ کران کو دیدیاتھا جس میں اس قسم کے اصول موضوعہ کی یادداشت تھی وہ ان اصولِ موضوعہ ہی کو سن کر پھیکے سے پڑگئے تھے ۔ ایک کام میں نے یہ کیا کہ ان کو آنے کے وقت اسٹیشن پر لینے کو نہیں گیا ، دوسرے یہ کہ ان کو خانقاہ میں نہیں بلایا اور نہ ٹھہرایا یہ اس لئے کہ وہ یہاں پر آئیں گے تومجھ کو ان کی تعظیم کے لئے اٹھنا پڑے گا اور میں ان کے پاس جاؤں گا تو وہ