آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہاں اغراض وغیرہ سے اس پر پردہ ضرور پڑجاتا ہے ،جب اغراض وغیرہ کو آپ بالائے طاق رکھ دیں گے تو آپ کو حق بھی اور عالم حقانی بھی سب مل جائے گا، بس اس کا اتباع کیجئے اب یہ اتباع اس عالم کا اتباع نہ ہوگا بلکہ اتباع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا ، غرض ہر بات میں اتباع کرو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواہ بواسطہ ہو اور وہ واسطہ عالم حقانی ہے یا بلا واسطہ اور اس وقت تو بواسطہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ حضور دنیا میں تشریف فرما نہیں ہیں ۔۱؎تحقیق کے بعد عوام جس کا بھی اتباع کریں گے کافی ہے میں اس کی نظیر پیش کرتا ہوں (جس سے بات بالکل سمجھ میں آجائے گی)دیکھو! مسئلہ یہ ہے کہ اگر جنگل میں چار آدمی ہوں اورنماز کا وقت آجاوے اور قبلہ نہ معلوم ہوسکے تو ایسی حالت میں شرعا جہتِ تحری قبلہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سوچ لینا چاہئے جس طرف قبلہ ہونے کا ظن غالب ہو اسی طرف نماز پڑھ لینی چاہئے ،اب فرض کیجئے کہ ان چاروں آدمیوں میں اختلاف ہواایک کی رائے پورب کی طرف، ایک کی پچھم جانب، ایک کی دکھن، ایک کی اتر طرف قبلہ ہونے کی ہوئی تو اب مسئلہ فقہ کا یہ ہے کہ ہرشخص کو اپنی رائے پر عمل کرنا چاہئے اور جس سمت کو اس کی رائے میں ترجیح ہو وہ اسی طرف نماز پڑھے، اگر دوسرے کی رائے کے موافق پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی خواہ وہ سمت واقع میں صحیح ہی کیوں نہ ہو،اب یہ بات صریحاً ظاہر ہے کہ سمت صحیح کی طرف ان چاروں میں سے ایک ہی کی نماز ہوئی ہوگی لیکن عنداللہ سب ماجور ہیں اور قیامت میں کسی سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم نے نماز غیر قبلہ کی طرف کیوں پڑھی تھی؟ جس کی یہ وجہ نہیں کہ سب نے نماز قبلہ ہی کی طرف پڑھی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ قبلہ چاروں سمتوں میں تو ہو نہیں سکتا لامحالہ ایک ہی طرف رہا ہوگا، بلکہ وجہ یہ ہے کہ سبھوں ------------------------------ ۱؎ وعظ الصالحون ملحقہ اصلاح اعمال ص۱۴۷،۱۴۸ تا۱۵۲