آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مالم یظہر موافقۃ لقول المجتہدین۔۱؎ ٭فتویٰ کی مخالفت کس کو کہتے ہیں ؟ کسی کے فتویٰ جواز کے بعد اس فعل کوترک کرنا صاحب فتویٰ کی مخالفت نہیں ہے ،البتہ فتویٰ وجوب کے بعد اس فعل کو ترک کرنا یافتویٰ حرمت کے بعد اس فعل کا ارتکاب کرنا یہ بیشک(فتویٰ کی) مخالفت ہے ۔۲؎ ٭قال العلامہ الشاطبی رحمہ اللہ تعالیٰ: فتاوی المجتہدین بالنسبۃ الی العوام کالأدلۃ الشرعیۃ بالنسبۃ الی المجتہدین ،والدلیل علیہ أن وجود الأدلۃ بالنسبۃ الی المقلدین وعد مہا سوائٌ اذکانوا لایستفیدون منہا شیئاً ،فلیس النظر فی الأدلۃ والاستنباط من شأنہم ،ولا یجوز ذالک لہم البتۃ ، وقد قال تعالیٰ فَسْئَلُوْ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ،والمقلد غیرعالم ،فلایصح لہ الا سوال أہل الذکر ،والیہم مرجعہ فی احکام الدین علی الاطلاق ، فہم اذاً القائمون لہ‘ مقام الشارع، واقوالہم قائمۃ مقام الشارع ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فثبت أن قول المجتہد دلیل العامی ۔ (الموافقات للشاطبی ،کتاب الاجتہاد ، المسئلۃ التاسعۃ ص۱۸۵ج۴ ) مطلب یہ کہ: مجتہدین کے فتاویٰ عوام کے لئے شرعی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ مقلدین کے حق میں دلائل کا ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ وہ ان دلائل سے مستفید نہیں ہوسکتے،استنباط اور ادلۂ شریعہ سے انہیں کچھ سروکار نہیں ،اور ان کے لئے یہ جائز اور ممکن بھی نہیں ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَسْئَلُوْ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَکہ غیر عالم عالم سے پوچھیں ،اور مقلدغیرعالم ہے لہٰذا اس کے لئے اہل علم کے سوال کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں ،احکام دین میں علماء ہی اس کا مرجع ہیں ، اس لئے علماء مجتہدین اور ان کے اقوال عامی کے لئے شریعت کا درجہ رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس سے ثابت ہوگیا کہ مجتہدین کا قول عامی کے حق میں دلیل کا درجہ رکھتا ہے ۔ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ص۱۸۰ج۳ رسالہ کشف الدجیٰ عن وجہ الربوا ۲؎ امدادا لفتاویٰ ۱۵۷ ج۳سوال نمبر ۲۰۴