آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہونا ہے ،ہاں اگر کوئی طالب علم ہو اور فن سیکھتا ہو اس کو وجہ اور دلائل کا سوال کرنا برا نہیں ، بلکہ اس کوضروری ہے اس لئے کہ وہ دین کے اندر محقق بننا چاہتا ہے ،اگر کوئی کہے کہ ہم بھی محقق بننا چاہتے ہیں توہم ان سے کہیں گے کہ جناب نوکری چھوڑئیے ،زراعت، تجارت،دنیا کے سب کام چھوڑئیے اور ہمارے پاس کم ازکم دس سال رہئے دیکھئے آپ کو بھی ہم بتلائیں گے ۔ ۱؎کتمان علم کا شبہ اور اس کا جواب بعضے نامناسب سوالات کا جو میں جواب نہیں دیتا تو میرے پاس دھمکی کے خطوط آتے ہیں کہ حدیث میں ہے: من سئل عن علم فکتمہ الجَمَہُ اﷲ بلجام النار یوم القیمۃ۔یعنی اگر کسی سے کوئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو نہ بتلائے تو اس کو دوزخ کی لگام لگائی جائیگی۔اس قدر بد تہذیبی پھیل گئی ہے کہ مسئلہ پوچھتے ہیں اور یہ حدیث لکھتے ہیں ، ارے بھائی! جس سے یہ مسئلہ پوچھا جائے کیااس سے یہی معاملہ کیا جاتا ہے؟ کسی عالم سے کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا انہوں نے جواب دیا اور وہ کوئی ایسا ہی مسئلہ تھا اس نے انہیں یہی حدیث سنائی انہوں نے اس کو خوب جواب دیا کہ: ’’بہت اچھا جب قیامت میں میرے لگام لگے اور میں آپ کو مدد کے لیے بلاؤں تو اس وقت مت آئیے گا آپ بے فکر رہیں میں آپ کو تکلیف نہیں دوں گا‘‘۔۲؎ اگر بلا ضرورت ہی تحقیق کا شوق ہے تو مدارس میں جاکر ترتیب سے تعلیم حاصل کیجئے۔۳؎علمی اور تحقیقی مسائل اگر نااہل پوچھے تو کیا کرنا چاہئے ایسے موقعوں پر میں بھی یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ ہر شئے کے قواعد ہیں ، ------------------------------ ۱؎ وعظ الغاء المجازفۃملحقہ دعوات عبدیت ص۴۲ج۲۱۶؎ الافاضات ۱؍۹۶۱۔ ۳؎ االافاضات قدیم ۴؍۱۳۔