آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے لوگو! جو شخص کسی بات کاعلم رکھتا ہو تو اس کو چاہئے کہ بتادے اور جو نہ جانتا ہو اس کو چاہئے کہ کہہ دے کہ اللہ جاننے والا ہے کیونکہ یہ کہہ دینا بھی علم کی بات ہے ۔ (بخاری) اس حدیث میں صریح تاکید ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو کہہ دے کہ معلوم نہیں ۔۱؎لاعلمی ظاہر کرنے کی بابت ضروری تنبیہ فرمایا: جو شخص کبھی کبھی سوال کے جواب میں لااعلم بھی کہہ دیتا ہو اگر چہ اس کی نیت بھی صحیح ہو، تاہم اس سے جاہ بڑھتی ہے اور سامعین سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ بتلاتا ہے اسی وقت بتلاتا ہے جب کہ اس کو اطمینان ہوتا ہے باقی نفس الامر میں خواہ کچھ بھی ہو، اس لیے مناسب یہ ہے کہ بلا تکلف اس لفظ کا استعمال نہ کیا کریں اور جو معلوم نہ ہو کہہ دیا کریں ، یوں نہ سمجھیں کہ اس سے ہماری سبکی ہوگی۔۲؎فتویٰ دینے میں جرأت و پیش قدمی نہ کرنا چاہئے فرمایا : مولانا محمد قاسم صاحب فتویٰ نہیں دیتے تھے یہ فرمادیتے تھے کہ مولانا رشید احمد صاحب بہت بڑے عالم ہیں ان کے پاس لے جاؤ، مولوی محمد علی کہتے تھے کہ ایک مرتبہ بہت حضرات جمع تھے جو مسئلہ کوئی پوچھنے آتا اس سے ہر بزرگ یہی فرمادیتے کہ اس کو فلاں کے پاس لے جاؤ ،وہ اس فن کو خوب جانتے ہیں وہ بتادیں گے۔۳؎ فرمایا : بعضے استفتاء آتے ہیں ان پر لکھ دیتاہوں کہ مدرسہ دیوبند یا سہارنپور سے معلوم کرلو، بعض آدمی اعتراض لکھ کر بھیجتے ہیں میں جواب ہی نہیں دیتا خواہ معترضین یہ سمجھتے ہوں کہ کچھ آتا جاتا نہیں ، ہاں ! سمجھ دار منصف آدمی سوال کرے تو جی چاہتا ہے جواب دینے کو؛ اس سے خطاب کرکے بھی جی خوش ہوتا ہے۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ اصلاح انقلاب ص۲۹۱-۲۹۲۔ ۲؎ اشرف المعمولات ص:۲۳ ۔۳؎ دعوات عبدیت ۱۴؍۲۶ ۔ ۴؎ حسن العزیز ۲؍۲۰۳۔