آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عدالت کے فیصلے کے ساتھ شرعی پنچایت سے بھی فیصلہ کرائیے اگر کسی جگہ حکومت کی طرف سے ایسا حاکم متعین ہو جس کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں (یعنی حاکم غیرمسلم ہو یااحکام شرعیہ کی رعایت نہ کرتا ہو،یامذہب مالکیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صورت میں حاکم عادل نہ ہو یاعالم نہ ہو اور علماء سے مراجعت بھی نہ کرے تو اس کا فیصلہ معتبر نہیں جیسا کہ اصل رسالہ میں مفصل معلوم ہوچکا ہے)مگر قانونی خطرہ سے حفاظت کے لئے اس کے یہاں مقدمہ دائر کرنا پڑے تو مقدمہ دائر کرنے کا مضائقہ نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ جماعت ِمسلمین سے بھی فسخ کا حکم حاصل کیاجائے اور عمل کا تمام ترمدار جماعت ِ مسلمین ہی کے فیصلہ پر رکھا جائے پھر خواہ اول حکومت سے فیصلہ حاصل کیا جائے خواہ جماعت ِ مسلمین سے اول حکم حاصل کیاجائے خواہ دونوں جگہ ایک ہی ساتھ مقدمہ پیش کردیا جائے مگر ہر حال میں جماعت مسلمین کے فیصلے سے پیشتر صرف ایسے حاکم کے فیصلے کو ہرگز کافی نہ سمجھیں جس کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ۔۱؎اہل حل و عقد حاکم کے قائم مقام ہوں گے شریعت نے بہت سے احکام میں ضرورت کے وقت عامۃ المسلمین (یعنی عام مسلمانوں ) کو سلطان کے قائم مقام ٹھہرایا ہے جیسے نصب امام خطیب جمعہ اور وقف کے متولی کا نصب کرنا وغیرہ لفقدان السلطان المسلم۔۲؎ لیکن اب عام مومنین کا اجتماع تو مشکل ہے اسی لیے وہ لوگ ان کے قائم مقام ہوں گے جن کو عام مومنین سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بڑے ہیں ان کو زبان حال سے مانتے ہوں خواہ ان کا دینی اثر ہو یا دنیاوی اثر۔وہ کون لوگ ہیں ؟ اتقیاء واہل حل و عقد۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الحیلۃ الناجزۃ ص۱۵۶ ۔۲؎ ملفوظات اشرفیہ ص۴۰۲ ۳؎ حسن العزیز ۴۳؍۱۷۳ سوم۔