آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل(۳) علماء ومفتیوں میں ا ختلاف کے وقت عوام کے لئے دستورالعمل یہ شکایت آج کل اکثر زبانوں پر ہے کہ ہم کس کی پیروی کریں ،علماء اور مشائخ میں خود اختلاف ہے کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ ، اور بعض لوگ تو اس کے متعلق بہت ہی دریدہ دہن ہیں اور جو منھ میں آتا ہے بک دیتے ہیں (کہتے ہیں ) کہ سب کو چھوڑو اس غم ہی کو مت پالو،ان حضرات سے میں یہ عرض کرتاہوں کہ اختلاف کس چیز میں نہیں ہے؟ دنیا کی کوئی چیز بھی اختلاف سے خالی نہیں ، معاملہ علاج ہی کو لے لیجئے کہ جس ڈاکٹر کے پاس جا ؤ جس حکیم کے پاس جاؤ اس کی تشخیص الگ ،تجویز الگ ہیں ، دوائیں الگ ۔۔۔۔ غرض اتنا اختلاف ہے کہ خدا کی پناہ،مگر ہم کسی کو نہیں دیکھتے کہ اس اختلاف سے یہ نتیجہ نکالے کی ڈاکٹروں اور طبیبوں کو مطلقاً چھوڑدے اور بیماری میں علاج ہی نہ کرے، بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ ذراسی پھانس بھی لگ جائے یا خفیف ساز کام بھی ہوجائے تو ڈاکٹراور حکیم کی تلاش ہوتی ہے اور اختلافِ اطباّ ء سے متاثر نہیں ہوتے اور یہ نہیں کرتے کہ کسی کا بھی علاج نہ کریں اور خود کو اپنے ہی حال پر چھوڑے رکھیں بلکہ ڈاکٹر اور طبیب کو ڈھونڈھتے ہیں اور یہ کام بھی کسی اناڑی اور عطائی سے نہیں لیتے بلکہ اس کے لئے بھی ہوشیار اور کارکردہ معالج کو تلاش کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی مل جاتا ہے ، ایک پھانس کے لگ جانے میں تو یہ حالت ہوتی ہے اور دین کے بارہ میں یہ حکم لگادیا کہ چونکہ علماء میں اختلاف ہے لہٰذا سب کو چھوڑدو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دین اتنا بھی مہتم بالشان نہیں جتنی ایک پھانس کا لگنا۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ جلاء القلوب ملحقہ ذکروفکر ص۳۵۵