آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کے تحقیق کا ذریعہ ہی کیا ہے۔ اور اخباروں کی دیانت کا جو حال ہے سب کو معلوم ہے۔ (کچھ لوگ) سلطان کو امام وقت اور فرشتہ کہتے تھے اب اس کو شیطان سے بھی بدتر کہنے لگے، اس حالت میں کس کے بیان پر خاک اعتماد کیا جائے بس اسلم طریقہ یہی ہے کہ سکوت کیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ ہم کو تحقیق نہیں ، مگر اس جواب سے شرماتے ہیں کیونکہ اس میں جہل کا اقرار ہے حالانکہ صاحب علم ہونے کے لیے ہربات کا جاننا ضروری نہیں تو کسی ایک بات کے نہ جاننے سے آپ کا جاہل ہونا کیوں کر لازم آیا۔ ۱؎جواب کی دو قسمیں حاکمانہ حکیمانہ کہیں حاکمانہ جواب مناسب ہوتا ہے اور کہیں حکیمانہ سب کو ایک لکڑی سے نہیں ہانکا جاتا، عوام اسی سے بگڑ گئے، علماء کے حکیمانہ جواب ہی سے ان کا حوصلہ بڑھ گیا حتی کہ اب ہر بات کی علل و اسرار پوچھنے کی جرأ ت ہوگئی، (بعض لوگ بزرگوں کے اشعار کا نصوص سے مقابلہ کرنے لگے) حالانکہ نصوص کے مقابلہ میں سب ا شعار ہیچ ہیں ، بس ہم تو یہ جانتے ہیں کہ یہ خدا و رسول کا حکم ہے اس کے سامنے کہاں کی مصلحت کہاں کی حکمت جو کوئی نصوص کا مقابلہ اشعار سے کرے اس کو ڈانٹ دینا چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنین کی دیت میں غرۃ عبد یا امۃ کا حکم دیا تھا مدعی علیہ نے حضور کے سامنے یہ کہا کہ کیف اغرم من لا شرب ولا أکل ولا نطق ولا استہل ومثل ذلک بطل یعنی ایسے بچہ کی کیا دیت جس نے نہ کھایا نہ پیا اور نہ بولا نہ چِلّایا اور ایسا معاملہ تو یوں ہی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا أسجع کسجع الکہان کیا واہیات ہے کاہنوں جیسی مسجع مقفی عبارت سے شریعت کا مقابلہ کرتے ہو، غرض حضور نے اس کو ڈانٹ دیا تو بعض جگہ اس کی بھی ضرورت ہے، کہیں حاکمانہ جواب مناسب ہوتا ہے اور کہیں حکیمانہ۔ ------------------------------ ۱؎ الدوام علی الاسلام ملحقہ محاسن اسلام ص: ۲۹۴۔