آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کے درمیان ہیں ان کا مدار توکفر باطنی پر ہے جس کابالتعیین کسی پر حکم نہیں لگایا جاسکتا اور دوسرا درجہ احکام ظاہرہ کے اعتبار سے ہے اس کا مدار قوانین خاصہ پر ہے جو علماء کے کلام میں مدون ہیں اس درجہ میں احتمالات غیر ناشی عن دلیل ملحوظ نہیں ورنہ کسی کافر پر جہاد تک بھی جائز نہ رہے کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دل میں مومن ہو اور اظہار کفر میں اس کے پاس کوئی واقعی عذر ہو ،اور ظاہر ہے کہ اس میں کس قدر خلط اور خبط لازم آتا ہے۔۱؎کفر کی دوقسمیں کفر اجمالی ،کفر تفصیلی ایمان ایک اجمالی ہے ایک تفصیلی اور دونوں مدار احکام ہیں ،اسی طرح کفر بھی ایک اجمالی ہے ایک تفصیلی اور دونوں مداراحکام ہیں ،پس جیسا فرقۂ اسلامیہ کی طرف اپنے کو نسبت کردینا موجب حکم بالایمان ہے گوایک ایک عقیدۂ اسلامیہ کی تفصیل نہ کرے ، اسی طرح کسی فرقۂ کفریہ کی طرف اپنے کونسبت کردینا موجب حکم بالکفر ہے، گوایک ایک عقیدۂ کفر یہ کی تفصیل نہ کرے آگے ایک ضعیف سوال رہ جاتاہے کہ اگر ایسے فرقہ کی طرف اپنے کو منسوب کرے جس کے کچھ عقائد اسلامیہ ہوں کچھ کفریہ ،اس کا کیا حکم ہوگا ، سو قواعد سمعیہ وعقلیہ اس پر متفق ہیں کہ مجموعہ ایمان وکفر کاکفر ہی ہے وَقَدْصَرَّحَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالیٰ وَیَقُوْلُوْنَ نُوْمِنَ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْابَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًّاورنہ دنیا میں ایسا کوئی کافر نہ نکلے گا جسکاہر عقیدہ کفریہ ہی ہو ،کثرت سے کافر صانع کے قائل ہیں ،کثرت سے معاد کے قائل ہیں اور جو کہاجاتا ہے کہ اگر ننانوے وجوہ کفرکی ہو اور ایک ایمان کی توایمان کا حکم کیا جائے گا اس سے مراد کسی ایک ہی قول یافعل کے وہ وجوہ ہیں جن میں دونوں احتمال ہیں جیسے ایک کلام کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت ،نقوش وتاثرات ص:۲۶۶ ۲؎ حکیم الامت ،نقوش وتاثرات ص:۲۶۶